Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Thursday, April 25, 2024

پی ڈی ایم کا پشاور جلسہ – کتنا کامیاب کتنا ناکام

سیاسی عوامی اور صحافتی حلقوں میں 22 نومبر کو پشاور میں ہونے والے پی ڈی ایم کے جلسے پر بحث جاری ہے جبکہ فریقین کی جانب سے جلسے کی کامیابی اور ناکامی کے بارے میں مختلف قسم کے دعوے بھی زیر بحث ہیں۔ حکومت نے اس ایونٹ کو ناکام قرار دے دیا ہے تاہم اپوزیشن کا دعوی ہے کہ یہ شرکاء کی تعداد کے لحاظ سے ایک کامیاب جلسہ تھا۔ دوسری طرف صحافتی حلقے اس ایونٹ کو پی ڈی ایم میں شامل بڑی پارٹیوں کے حجم کے تناظر میں اگر ناکام کوشش قرار نہیں دے رہے تو اس دعوے کو بھی نا مناسب سمجھتے ہیں کہ یہ تعداد کے لحاظ سے کوئی قابل ذکر یا غیر معمولی جلسہ تھا۔ زمینی حقائق تو یہ ہیں کہ جلسے کے بعد صرف اے این پی اور جے یو آئی (ف) وہ دو پارٹیاں تھیں جن کے لیڈر اور کارکنوں نے اس کا دفاع کرتے ہوئے اسے تاریخی جلسہ قرار دے دیا باقی پارٹیاں جلسے سے پہلے یا اس کے بعد خاموش یا لاتعلق ہی رہی ہیں۔

جلسے سے قبل ہی اس کے انتظامات اور اختیارات کے معاملے پر بعض بڑی پارٹیوں خصوصاً جے یو آئی (ف) اور اے این پی کے درمیان اختلافات پیدا ہوگئے تھے۔ جے یو آئی کی کوشش رہی کہ اس ایونٹ کا تمام کریڈٹ لے کر دوسری پارٹیوں کو محض کارکنوں اور لیڈروں کی واجبی شرکت تک محدود رکھا جائے اور یہی وجہ ہے کہ جے یو آئی نے نہ صرف سیکیورٹی بلکہ میڈیا مینجمنٹ، لوکیشن کے انتخاب اور دیگر انتظامی امور کو اپنے پاس رکھ کر دوسری پارٹیوں کو باہر رکھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سٹیج اور ساؤنڈ سسٹم سمیت سیکورٹی کے انتظامات میں بھی شدید نوعیت کی بدانتظامی دیکھنے کو ملی جبکہ ان دعووں میں بھی کوئی حقیقت سامنے نہیں آئی جن میں کہا گیا تھا کہ کارکنوں کو کرونا سے بچاؤ کے لئے ماسک یا سینیٹائزر فراہم کیے جائیں گے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) اپنے کارکنوں کو نکالنے میں ناکام رہی جب کہ یہ رویہ بھی دیکھنے کو ملا جس بھی پارٹی کے لیڈر تقریر کرنے کے بعد بیٹھے یا نکلے ُان کے کارکن جلسہ گاہ سے چلتے بنے۔ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن جب تقریر کرنے آئے تو جلسہ گاہ میں موجود دوسرے تو ایک طرف اُن کے اپنے کارکنوں کی بڑی تعداد بھی نکل گئی تھی بعض لوگ جگہ کے نا مناسب انتخاب پر بھی تنقید کرتے پائے گئے۔

پی ڈی ایم کی موبلائزیشن محض سوشل میڈیا پر اپنی اپنی تصاویر شیئر کرنے کی کوششوں تک محدود رہی اور بعض خوش فہمیاں بھی نقصان کی وجہ بنیں۔ یہ چونکہ پورے صوبے کی سطح پر ہونے والا پی ڈی ایم کا پہلا پاور شو تھا اس لئے اس کی تعداد کو کسی بھی طور پر قابل ذکر قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ متوقع تعداد ہزاروں میں نہیں بلکہ لاکھوں میں بتائی گئی تھی جو کہ عملاً بہت کم رہی۔

دوسری طرف حکومت نے نہ صرف ممکنہ رکاوٹیں کھڑی کیں بلکہ جلسے پر خودکش حملے کی اطلاعات یا افواہیں بھی بعض وزراء کی جانب سے دی گئیں جس کے باعث پشاور کے مخصوص حالات کے پس منظرمیں کارکنان اور عوام خوفزدہ ہو گئے اور انہوں نے بھرپور شرکت سے گریز کیا۔عین جلسے کے دوران مریم نواز کے اس اعلان نے بھی لیڈروں اور کارکنوں کے ٹیمپو کو کافی متاثر کیا کہ ان کی دادی کا انتقال ہو چکا ہے اس لیے وہ تقریر نہیں کریں گی۔ ُان کے اس اعلان کے بعد لیگی کارکنوں کے علاوہ وہ عام لوگ بھی جلسہ گاہ سے چلے گئے جو کہ ان کو سننے اور دیکھنے آئے تھے۔ یہی رویہ پیپلز پارٹی کے کارکنوں کا بھی رہا۔

قابل ذکر بات یہ ہے کے اسی روز گراسی گراونڈ سوات میں جماعت اسلامی کا جلسہ ہورہا تھا اس میں نہ صرف یہ کہ کارکنوں اور عوام کی بڑی تعداد شریک ہوئی بلکہ اس کے انتظامات بھی بہت بہتر تھے اور ممکن حد تک لوگوں نے ماسک کے استعمال پر بھی توجہ دی۔

حکومتی حلقوں کا یہ دعویٰ یا کہنا بھی شاید مناسب اور درست نہیں ہے کہ پی ڈی ایم کا پاور شو ناکام رہا ہے۔ دوسرے شہروں کے اجتماعات کا اگر پشاور جلسے کی تعداد سے موازنہ کیا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ یہ کراچی جلسے کے بعد پی ڈی ایم کا دوسرا بڑا شو تھا تاہم انتظامی نقائص اور بعض پارٹیوں کی لاتعلقی نے اس کو تاریخی جلسہ بننے نہیں دیا اور اگر یہ رویہ پی ڈی ایم میں شامل پارٹیوں کے درمیان مستقبل میں بھی برقرار رہا تو اس سے نہ صرف اس اتحاد کی مجموعی ساکھ متاثر ہو گی بلکہ کارکنوں کے درمیان بدگمانیوں میں اضافے اور لاتعلقی کا راستہ بھی ہموار ہوگا۔ اچھی بات یہ رہی کہ یہ جلسہ بعض سخت خدشات اور حملے کی اطلاعات کے باوجود پرامن طریقے سے احتتام پذیر ہوا۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket