Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Thursday, April 25, 2024

نگینے لوگ، منفرد کام

خلاف توقع پشتون معاشرے کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس کا دامن اچھی شاعری موسیقی اور گلوکاری کی دولت سے مالا مال ہے اور اس وقت بھی کمال کی بات یہ ہے کہ کسی بھی دوسری زبان کے مقابلے میں سب سے زیادہ تعلیم یافتہ گلوکار پشتو موسیقی کو میسر ہیں۔ سردار علی ٹکر، گل زارعالم اور ہارون بادشاہ نے 80 اور 90 کی دہائیوں میں جہاں پیشہ ورانہ خاندانوں سے تعلق رکھنے کی روایت کے برعکس معیاری کام کرکے پشتو موسیقی کو جدت اور مقصدیت دی وہاں ان کے باعث پڑھے لکھے خاندانی نوجوانوں کی حوصلہ افزائی اور سرپرستی کا راستہ ہموار کرکے بہت سے باصلاحیت گلوکاروں اور شاعروں کی آمد کو بھی ممکن بنایا۔ آج ایسے نوجوانوں کی تعداد اور خدمات بہت زیادہ ہیں جو کہ گلوبلائزیشن کے اس دور میں اپنی زبان، ثقافت اور موسیقی کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ بختیار خٹک، حمایون خان، جانس خان، عرفان خان، نعیم طوری، شان یوسفزئی، سیف خان، بلال خان، راشد یوسفزئی، فضا فیاض، رحیم شاہ، زیک آفریدی اور کرن خان سمیت متعدد ایسے باصلاحیت گلوکار بھی بیک وقت پشتو موسیقی کو دستیاب ہیں جنہوں نے جہاں ایک طرف بہت ورائٹی دی تو دوسری طرف ان کی خاصیت اور انفرادیت یہ ہے کہ یہ اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی ہیں ان میں سے پانچ گلوکار ایسے ہیں جنہوں نے پی ایچ ڈی اور ایم فل کی ہوئی ہے یا کر رہے ہیں۔ ہر ایک کا اپنا الگ رنگ، آہنگ اور حلقہ اثر ہے۔ تاہم جو بات ان سب میں مشترک ہے وہ ان کا بہترین کلام اور کمپوزیشن کا انتخاب ہے یہی وہ بنیادی سبب ہے کہ پشتو موسیقی اور شاعری اردو سمیت پاکستان کے کسی بھی دوسری زبان سے زیادہ سنی اور پسند کی جاتی ہے۔

نوے کی دہائی میں جہاں ہارون بادشاہ نے سردار علی ٹکر اور گلزارعالم کے قدم پر چل کر اپنی الگ پہچان بنائی وہاں 2000 کی دہائی میں مذکورہ بالا نئے گلوکاروں نے اسی تسلسل کو قائم رکھتے ہوئے نت نئے تجربات کئے اور بہت نام کمایا۔

اگرچہ گزشتہ چند برسوں کے دوران بعض اچھے گلوکاروں نے بوجوہ معیار کو برقرار نہیں رکھا اور بعض اوقات معیاری شاعری اور گلوکاری کے انتخاب کی بجائے مارکیٹنگ کی لہر کا شکار ہوئے۔جس کے باعث بعض کی مقبولیت میں تیزی سے کمی آنا شروع ہوگئی تاہم ان میں کرن خان ایک ایسے گلوکار کے طور پر سامنے آگئے جنہوں نے مروجہ ٹرینڈز اور مارکیٹنگ کے فوائد سے شعوری طور پر خود کو دور رکھا اور کوشش کی کہ معیار اور مقدار دونوں پر کوئی کمپرومائز نہ ہو۔ اس رویے نے ان کو دوسروں سے نہ صرف ممتاز بنایا بلکہ تعلیم یافتہ اور نوجوان طبقوں میں ان کی شہرت مزید بڑھتی گئی اور وہ ساتھ ساتھ نت نئے تجربات بھی کرتے رہے۔ اس وقت اگر یہ کہا جائے کہ وہ واحد فل ٹائم سنگر ہے تو غلط نہیں ہوگا۔ بہترین اور غیر مروجہ کلام یا شاعری کے انتخاب کے باعث ان کا کلام ان کا کام یکسانیت کی بجائے انفرادیت سے ہمکنار ہوتا رہااور یہی وجہ ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے علاوہ ان تمام ممالک میں ان کے سننے والے لاکھوں کی تعداد میں ہیں جہاں پشتون رہائش پذیر ہیں۔

اس دوران وہ نہ صرف یہ کہ اچھی موسیقی دیتے رہے بلکہ ساتھ ساتھ اعلیٰ تعلیم کی اپنی حصول کو بھی انہوں نے جاری رکھا اور ایم فل  اور پی ایچ ڈی کی لیول تک پہنچ گئے۔ اس کے ساتھ ساتھ سب سے اچھی بات یہ سامنے آئی کہ انہوں نے پڑھنے کے ساتھ لکھنے کا سلسلہ بھی جاری رکھا اور ان کی تین کتابیں مارکیٹ میں آ کر قارئین کی توجہ حاصل کر چکی ہیں جبکہ مزید آنے والی ہیں۔ جو تین کتابیں کئی ایڈیشنز کی صورت میں چھپ چکی ہیں ان میں “مینا او مننہ” اور “کلی تہ مہ زہ پہ خار راشہ” ان کی اپنی شاعری پر مشتمل ہے جبکہ ایک منفرد کتاب “د کرن خان جباڑے” ایسی اقوال، ضرب المثل اور نصیحت آموز مواد پر مشتمل ہیں جو کہ انہوں نے دوسری زبانوں سے ترجمعہ کر کے پشتو میں اس مقصد کے لیے چاپ دی ہیں کہ اس کے ذریعے نئی نسل اور قارئین کی معلومات اور تربیت میں بہتری واقع ہو۔ اس کوشش میں ان کو دوسروں سے ممتاز بنا دیا ہے اور ان کی تیسری کتاب کا انوکھا تجربہ بہت سراہا اور پسند کیا جا رہا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ہمیں ان سب کی قدر کرنی چاہیے اسی موضوع کو آگے بڑھاتے ہوئے حکمرانوں کی توجہ صوبے کے اُن درجنوں فنکاروں کے اس حالیہ احتجاج کی جانب مبذول کرائی جائے جو کہ بیروزگاری، دوسرے مسائل اور مواقع نہ ملنے کے باعث گزشتہ چند ہفتوں سے احتجاج پر ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ان فنکاروں کے جائز احتجاج اور مطالبات کا عملی نوٹس لے کر ان کی سرپرستی اور مدد کرے۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket