Voice of Khyber Pakhtunkhwa
Tuesday, May 14, 2024

صوبہ کی تہذیب و تمدن کی بحالی کی کوششیں

سابقہ حکومتوں کے برعکس موجودہ حکومت کو یہ کریڈٹ ضرور دینا چاہیے کہ اس نے خیبر پختونخوا میں سیاحت کے فروغ،  کھیلوں کی سرگرمیاں بڑھانے اور ثقافتی سرگرمیاں تیز کرنے کے علاوہ صوبے کے تاریخی مقامات،  مراکز اور عمارات کو نہ صرف یہ کہ محفوظ بنانے پر خصوصی توجہ دی بلکہ صوبے کی شاندار تہذیب اور تاریخ کو اپنے شہریوں کے علاوہ دنیا کے سیاحوں کے لئے بھی دلچسپی کا حامل بنایا۔  یہی وجہ ہے کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران لاکھوں کی تعداد میں سیاحوں نے خیبرپختونخوا کا رخ کر کے یہاں اربوں روپے خرچ کئے جس سے حکومت کے علاوہ عام آدمی اور کاروباری حلقوں کو بھی بہت فائدہ پہنچا۔

کھیلوں، سیاحت، ثقافت کا فروغ وزیراعظم عمران خان کی ترجیحات میں شامل رہا ہے۔  اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ خیبرپختونخواہ نا صرف قدرتی وسائل اور حسن کی رعنائیوں سے مالا مال ہے بلکہ یہ مختلف تہذیبوں کا مرکز بھی رہا ہے جن میں بدھ مت اور گندھارا کی تہذیبیں بھی شامل ہیں۔  سال 2002 کے بعد جب یہ خطہ بدامنی اور شدت پسندی کی لپیٹ میں آگیا تو اس کے نتیجے میں صوبے کی سیاحت، قومی آثار اور ثقافت کو ناقابل تلافی حد تک نقصان پہنچایا گیا اور اس کے باعث جہاں سیاحت ختم ہوکر رہ گئی وہاں سماجی اور ثقافتی سرگرمیاں بھی بری طرح متاثر ہوئیں۔ جان بوجھ کر ان تمام مراکز کو حملوں کا نشانہ بنایا گیا جہاں عوام اکٹھے ہوسکتے تھے، مکالمہ کر سکتے تھے یا  دوسری سرگرمیاں جاری رکھ سکتے تھے۔  یہاں تک کہ حجرے، مساجد، میلوں اور مزارات تک کو حملوں کا نشانہ بنایا گیا۔  اس بدترین لہر نے اپنوں کے علاوہ غیر ملکی سیاحوں پر بھی صوبے کے تاریخی اور خوبصورت مقامات کے دروازے بند کر دئے  اور معاشرہ بد امنی کے باعث خوف گھٹن اور تنہائی کا شکار ہو کر رہ گیا۔  کھیلوں کے میدان خالی اور ویران ہو گئے سینما گھر پلازوں میں تبدیل ہوگئے لائبریریاں کتب خانے اور ہوٹل سب ویران ہونے لگے جس سے صوبے کا سماجی ڈھانچہ تباہ ہو کر رہ گیا۔

سال 2015 کے پہلے مہینے کے دوران جب آپریشن ضرب عضب اور دیگر کارروائیوں کے نتیجے میں بتدریج امن قائم ہونے لگا اور ریاستی اداروں نے متاثرہ علاقوں خصوصاً قبائلی علاقہ جات ملکنڈ ڈویژن اور ہزارہ ڈویژن کی بحالی اور تعمیر نو پر توجہ دینا شروع کی۔ بتدریج اس کے مثبت نتائج اور اثرات آنا شروع ہوگئے ۔سہولیات اور ترقیاتی فنڈز کی فراہمی کو یقینی بنایا گیا نیشنل گیمز کا انعقاد کیا گیا سٹیڈیم تعمیر کیے جانے لگے سڑکیں بنوائی گئیں اور ثقافتی سرگرمیاں شروع کی گئیں۔ ان اقدامات سے عوام کی ذہنی اور جسمانی بحالی کا سلسلہ چل نکلا اور نجی شعبے نے بھی ان سرگرمیوں میں حصہ ڈالنا شروع کیا۔

 موجودہ حکومت نے اس تسلسل کو نہ صرف برقرار رکھا بلکہ اس میں تیزی لائی گئی۔  اس ضمن میں محکمہ آثار قدیمہ کی مثال دی جاسکتی ہے جس نے پشاور سمیت پورے صوبے میں ان تاریخی مقامات، آثار، میوزیمز اور سائٹس کی بحالی پر غیر معمولی توجہ دی جو کہ مخصوص حالات عدم توجھی اور بدامنی کے باعث عوام کی توجہ اور دلچسپی سے محروم ہوگئے تھے۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران اس ادارے کے سیکرٹری اور ممتاز بیوروکریٹ عابد مجید ،ڈ ائریکٹر  ارکیالوجی ڈاکٹر عبدالصمد خان اور ان کی ٹیم نے جہاں ایک طرف پشاور کو کلچرل سٹی بنانے کے مختلف پروجیکٹس پر عملی کام کرکے شہر کی عظمتِ رفتہ واپس لانے کی کوششیں کیں وہاں قبائلی علاقہ جات گلیات، ملاکنڈ ،صوابی اور درجن بھر دیگر علاقوں میں موجود تاریخی عمارات مراکز اور سائٹس کو محفوظ بنانے کے علاوہ بحال کرنے کا فریضہ بھی  احسن طریقہ سے نبھایا اور ان کی یہ عملی کوششیں تیزی سے جاری ہیں۔

 حال ہی میں اس ٹیم نے پشاور سے تعلق رکھنے والی بھارتی فلم انڈسٹری کے دو عظیم فنکاروں جہاں دلیپ کمار اور شری راج کپور کے آبائی گھروں کو تقریباً ڈھائی کروڑ کی رقم سے خریدنے کا مرحلہ بھی طے کیا۔ ان دونوں گھروں کو قومی ورثا قرار دے کر دنیا کو یہ عملی پیغام دیا جائے گا کہ پشاور اور اس صوبے نے  ماضی میں کتنے عظیم نام پیدا کئے ہیں۔  اس اقدام کو عوام کے علاوہ دلیپ کمار نے اپنی ٹویٹ اور بھارت کے علاوہ بعض ممتاز مغربی اخبارات نے بھی بہت سراہا اور یہ اقدام یقیناً ہمیشہ سراہا جائے گا۔ سپورٹس اور ثقافتی سرگرمیوں کے پس منظر میں اس کے ڈائریکٹر کی کارکردگی بھی عابد مجید اور ڈاکٹر صمد کی طرح بہت بہتر فعال اور موثر نظر آرہی ہے جو کہ انتہائی خوش آئند بات ہے۔  ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ تمام ادارے ایک دوسرے کے ساتھ کوآرڈینیشن میں رہیں اور حکومت ان کی بھرپور سرپرستی کرے۔

About the author

Leave a Comment

Add a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Shopping Basket