Pakistan-women-voters-1095x616

عام انتخابات میں خواتین کی بھرپور نمائندگی

عام انتخابات میں خواتین کی بھرپور نمائندگی
عقیل یوسفزئی
یہ بات انتہائی خوش آئند ہے کہ پاکستان بالخصوص خیبر پختونخوا میں اب کے بار سیکورٹی چیلنجز کے باوجود خواتین کی قابل ذکر تعداد حصہ لے رہی ہے۔ عام مگر خلاف حقیقت تاثر کے برعکس پشاور سمیت صوبے کے تقریباً تمام اضلاع میں مختلف پارٹیوں سے تعلق رکھنے والی تقریباً 50 خواتین میدان میں ہیں ۔ اب کے بار ان کی موجودگی صرف الیکشن کمیشن کی شرائط پوری کرنے تک محدود نظر نہیں آرہی بلکہ اکثر خواتین مرد اُمیدواروں سے بھی اچھی مہم چلاتی دکھائی دے رہی ہیں جو کہ قابل تعریف پیش رفت ہے ۔ اس ضمن میں ہم پشاور کی مثال دے سکتے ہیں جہاں اے این پی کی صوبائی سیکرٹری ثمر ہارون بلور اس کے باوجود شاندار طریقے سے انتخابی مہم چلارہی ہیں کہ ان کو سیکورٹی تھریٹس بھی ہیں اور گزشتہ انتخابات کے دوران ان کے شوہر ہارون بلور ساتھیوں سمیت ایک دہشت گرد حملے میں جان کی قربانی دے چکے ہیں ۔ اے این پی کی ایک اور لیڈر شگفتہ ملک بھی بہت فعال دکھائی دے رہی ہیں ۔ اسی طرح پیپلز پارٹی کی متعدد خواتین عام انتخابات میں بعض دیہاتی یا نسبتاً پسماندہ علاقوں سے زبردست انداز میں انتخابی مہم چلارہی ہیں ۔ اس ضمن میں بونیر سے پارٹی کے ٹکٹ پر انتخابات میں حصہ لینے والی ڈاکٹر سمیرا پرکاش کی مثال دی جاسکتی ہے جن کو عالمی اور ملکی میڈیا نے نمایاں کوریج سے نوازا اور وہ سب کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہیں ۔ پارٹی نے ایک اور فعال خاتون مہر سلطانہ کو بھی میدان میں اتارا ہے جو کہ لکی مروت جیسے علاقے سے ڈور ٹو ڈور کمپین چلاتی آرہی ہیں اور اس بولڈ اقدام کو جمہوریت پسند حلقوں میں کافی سراہا جارہا ہے ۔ اسی طرح اے این پی نے چترال جیسے ضلع سے بھی ایک فعال خاتون امیدوار کو میدان میں اتارا ہے ۔ سابق صوبائی وزیر ستارہ آیاز صوابی سے عام انتخابات میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے بہت روایتی انداز میں ڈور ٹو ڈور کمپین چلاتی دکھائی دے رہی ہیں اور ان کی اس انٹری کو بھی عوامی سطح پر ایک اہم تبدیلی کے طور پر لیا جارہا ہے ۔ مسلم لیگ ن کی سابق ایم پی اے صوبیہ خان بھی کافی سرگرم نظر آرہی ہیں ۔ اس تمام صورتحال نے جہاں دنیا پر یہ ثابت کردیا ہے کہ خیبرپختونخوا مقبول عام تاثر کے برعکس سیکورٹی چیلنجز کے باوجود نہ صرف یہ کہ جاری انتخابی مہم میں سب سے آگے ہے بلکہ یہ بھی واضح ہوگیا ہے کہ یہاں کی خواتین بھی مرد اُمیدواروں کی طرح بھرپور انتخابی سرگرمیوں میں مصروف عمل ہیں ۔ وہ تمام پارٹیاں قابل تعریف ہیں جنہوں نے اپنی متحرک فی میل اُمیدواروں کو انتخابی عمل کا حصہ بنادیا ہے ، اس پریکٹس سے سوسائٹی کی سوشل اور پولیٹیکل اسٹرکچر پر یقیناً بہت مثبت اثرات مرتب ہوں گے ۔

A central control room named Election Workspace has been established in Khyber Pakhtunkhwa

ـ8فروری کا تاریخ ساز دن اور متوقع منظر نامہ

عقیل یوسفزئی

جمعرات 8 فروری کا دن پاکستان کی سیاسی اور پارلیمانی تاریخ میں اس حوالے سے انتہائی اہمیت کا حامل سمجھا جائے گا کہ اس روز تقریباً ڈھائی سالہ سیاسی بحران کے خاتمے کی کوششوں کے تناظر میں الیکشن کی صورت میں کروڑوں پاکستانی اپنے ووٹ کے ذریعے نئی اسمبلیوں اور حکومتوں کا انتخاب کریں گے ۔ یہ گزشتہ ڈھائی سال ایک مخصوص پارٹی ، اس کے کی بورڈ واریرز اور حامیوں کے منفی طرزِ عمل کے باعث پاکستان کی ریاست اور سیاست کے علاوہ معاشرت پر بھی بہت گراں گزرے۔ جمعرات 8 فروری کے انتخابات کی تیاریاں مکمل ہیں اور ملک بھر میں 4807 امیدوار پانچ اسمبلیوں کے لئے انتخابی میدان میں ہیں ۔ خیبرپختونخوا میں قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے لئے 2527 اُمیدواروں کے درمیان مقابلہ ہوگا ۔ اس مقصد کے لیے صوبہ بھر میں 16000 پولنگ اسٹیشنز قائم کیے گئے ہیں ۔ بعض واقعات اور سیکورٹی کے درپیش چیلنجز کے باوجود صوبے میں انتہائی منظم اور پرامن طریقے سے انتخابی مہم چلائی گئی ۔ 9 مئی کے واقعات کی ذمہ دار پارٹی کی انتخابی مہم میں بھی کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی گئی اور اسی کا نتیجہ ہے کہ مذکورہ پارٹی نے نہ صرف سب سے زیادہ امیدوار میدان میں اتارے بلکہ ہر حلقے اور ضلع کی سطح پر انتخابی سرگرمیوں کا اہتمام بھی کیا جو کہ اچھی اور خوش آیند بات ہے ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ 8 فروری کے انتخابات کے نتیجے میں وفاق اور صوبوں کی سطح پر مخلوط حکومتیں قائم ہوں گی کیونکہ کوئی بھی پارٹی واضح یا درکار اکثریت لینے میں کامیاب نہیں ہوگی۔ یہ پیشگوئی یا یقینی امکان اس حوالے سے اہم ہے کہ پاکستان کو جو چیلنجر درپیش ہیں ان سے نمٹنے کیلئے اگر زیادہ سیاسی جماعتیں حکومتوں یا سسٹم میں شامل ہوں گی تو اس کے بہتر نتائج برآمد ہوں گے ۔ امید کی جاتی ہے کہ 8 فروری کا یہ ایونٹ نہ صرف پاکستان کو مختلف نوعیت کے بحرانوں سے نکالنے کا راستہ ہموار کردے گا بلکہ ملک معاشی اور معاشرتی طور پر بھی مستحکم ہو جائے گا ۔

Strong representation of women in general elections

عام انتخابات میں خواتین کی بھرپور نمائندگی

operations in Balochistan and Pakhtunkhwa

بلوچستان اور پختونخوا میں جاری کارروائیاں

عقیل یوسفزئی
حسب معمول اور حسب توقع وقفے وقفے سے شورش زدہ صوبوں یعنی صوبہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں جہاں ایک طرف فورسز کی کارروائیوں میں مزید تیزی واقع ہوگئی ہے وہاں شدت پسند تنظیموں اور گروپوں کے حملے بھی جاری ہیں ۔گزشتہ شب بلوچستان کے شہر مچھ میں ایک کالعدم بلوچ گوریلا گروپ نے شہر کے اس علاقے پر راکٹ برسائے جہاں مشہور زمانہ مچھ جیل کے علاوہ دیگر سرکاری مراکز بھی واقع ہیں ۔ فورسز نے پیشگی انٹلیجنس اطلاعات کی بنیاد پر جوابی کارروائی کی جس کے نتیجے میں نگران وزیرِ اطلاعات جان اچکزئی کے بقول نہ صرف حملے کو ناکام بنادیا گیا بلکہ فورسز نے آپریشن کا آغاز کرتے ہوئے حملہ آوروں کو پسپا کرکے کافی نقصان بھی پہنچایا ۔ یہ حملہ ایسے وقت پر کیا گیا جب ایران کے وزیرِ خارجہ اپنی ٹیم کے ہمراہ پاکستان کے اہم دورے پر تھے اور انہوں نے ایک بیان دیا تھا کہ پاکستان اور ایران کے سرحدی علاقوں میں موجود دہشت گرد گروہوں کو ایک تیسرے ملک کی مدد حاصل ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ مچھ حملہ کے فوراً بعد بعض اہم بھارتی ویب سائٹس نے اس تمام کارروائی کی ویڈیو کلپس جاری کیں۔ اس تناظر میں بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ یہ حملہ ایک باقاعدہ کوآرڈی نیشن کے ساتھ کیا گیا اور اس کے ذریعے ایرانی وزیر خارجہ اور پاکستان کو کوئی مخصوص پیغام دینا مقصود تھا۔
دوسری جانب خیبرپختونخوا کے علاقے شمالی وزیرستان میں اسی روز فورسز نے ایک انٹلی جنس بیسڈ آپریشن کرتے ہوئے مختلف دہشت گرد کارروائیوں اور حملوں میں مطلوب شدت پسند نیک مان اللہ کو ہلاک کیا اور بڑی مقدار میں گولہ بارود اور اسلحہ اپنی تحویل میں لیکر سرچ آپریشن شروع کیا ۔اس سے چند دن پہلے فورسز نے لکی مروت میں بھی ایک آپریشن کے دوران تین دہشت گرد ہلاک کردیے تھے ۔ ماہرین اس تمام منظر نامے کو علاقائی اور عالمی پراکسیز کے علاوہ ملک میں جاری انتخابی مہم کے تناظر میں بھی دیکھ رہے ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ اس نوعیت کی کارروائیوں کے ذریعے کوشش کی جارہی ہے کہ انتخابی سرگرمیوں کو متاثر کیا جائے تاہم خوش آئند بات یہ ہے کہ پورے ملک کی طرح خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں بھی سیاسی اور انتخابی سرگرمیاں جاری ہیں اور گزشتہ روز پولنگ اسٹیشنز کو بیلٹ پیپرز اور دیگر انتخابی مواد کی فراہمی کا سلسلہ بھی شروع کردیا گیا۔

Social Media, AI and Propaganda Warfare

کس کا دماغ کس کا ہاتھ؟

کس کا دماغ کس کا ہاتھ ؟
عقیل یوسفزئی
پروپیگنڈا مختلف ادوار میں مختلف ریاستوں ، نظریات اور گروپوں کا نہ صرف محبوب مشغلہ رہا ہے بلکہ اس کی ضرورت اور استعمال میں کبھی کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ۔ ماہرین پروپیگنڈا کو دنیا کا خطرناک ترین ہتھیار قرار دیتے آئے ہیں ۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ ہتھیار کسی بھی وقت کسی کے خلاف بھی کوئی بڑی سرمایہ کاری کیے بغیر استعمال کیا جاسکتا ہے اور اس کے لئے محض ایک مخصوص مائنڈ سیٹ کی ضرورت ہوتی ہے ۔ تاہم جدید دور میں پروپیگنڈا نامی سبجیکٹ نے نہ صرف یہ کہ ایک خطرناک اور پیچیدہ ہتھیار کی شکل اختیار کرلی ہے بلکہ اب اسے ایک باقاعدہ بزنس کی صورت میں بھی ڈیل کیا جاتا ہے ۔ روس نے چند برس قبل ایک امریکی الیکشن کمپین میں انٹرنیٹ ٹولز کے ذریعے ایک مخصوص لابی یا امیدوار کے پس منظر میں جو پروپیگنڈا مہم پلان کرکے مطلوبہ نتائج حاصل کیے اس پر امریکی ادارے ابھی تک حیران اور پریشان ہیں ۔ اس طریقہ کار نے دنیا پر ثابت کیا کہ جدید دور کے پروپیگنڈا ہتھیاروں کی نوعیت نہ صرف تبدیل ہوگئی ہے بلکہ یہ انتھائی خطرناک نتائج بھی دے سکتا ہے ۔ پاکستان کو بھی ایسے ہی ایک خطرناک پروپیگنڈا وار کا سامنا ہے ۔ اس جنگ کے دوران جہاں ایک طرف ایک بڑی سیاسی پارٹی اور اس کی ہم خیال قوتوں نے بہت بڑے پیمانے پر مختلف صورتوں میں سرمایہ کاری کی وہاں کوشش کی گئی کہ پاکستان کے ریاستی اور سیاسی ڈھانچے کو گرانے کے لیے مخصوص قسم کے ہتھکنڈے استعمال کیے جائیں ۔ اس جنگ کو ابتداء میں مقامی ردعمل یا جذباتی مزاحمت سمجھ کر نرمی کے ساتھ ڈیل کرنے کی کوشش کی گئی تاہم 9 مئ 2023 کے پرتشدد واقعات کے بعد جب اس معاملے کی سنجیدگی کے ساتھ ایک بڑے فریم ورک میں تحقیقات کی گئیں تو پتہ چلا کہ معاملہ اتنا سادہ اور مقامی نہیں ہے جتنا سمجھا گیا ۔ انکشافات سامنے آگئے کہ اس تمام پراسیس کو پوری پلاننگ کے تحت ایک ہمہ گیر انویسٹمنٹ کے ذریعے آگے بڑھایا گیا اور اس تمام پروپیگنڈا وار پر عالمی سطح پر بڑی سرمایہ کاری کی گئی ۔ مقصد اس کا یہ تھا کہ پاکستان کی ریاست اور معاشرے کو ٹارگٹ کرکے کمزور کیا جائے اور عام لوگوں بالخصوص نئی نسل کو یہ باور کرایا جائے کہ اگر ایک مخصوص پارٹی اور اس کی قیادت کے ہاتھ میں پاکستان نہ ہو تو یہ ملک اپنا وجود بھی برقرار نہیں رکھ پائے گا ۔ اس مقصد کی حصول کے لیے ایک مخصوص لیڈر کی ایک دیو مالائی شخصیت بنائی گئی اور اس لیڈر کو نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کی ایسی شخصیت کے طور پر متعارف کرایا گیا جیسے وہ دوسروں سے بہت مختلف اور منفرد ہو۔ اس شخصیت سازی میں عین اس نوعیت کا طریقہ کار اپنایا گیا جیسے کہ کئی دہائیوں قبل جرمنی اور یورپ میں ہٹلر کی مقبولیت کے لیے استعمال کیا گیا تھا ۔ بار بار یہ بتانے اور منوانے کی کوشش کی گئی کہ مذکورہ لیڈر غیر معمولی اہمیت کے حامل ہونے کے علاوہ غیر معمولی صلاحیتوں کا بھی حامل ہیں ۔ اس مقصد کے لیے خواتین اور نوجوان نسل کو بطور خاص ٹارگٹ کرت ہوئے استعمال کیا گیا اور ان کے ذہنوں میں یہ بات بھٹائی گئی کہ دوسرے تمام لیڈرز اور ان کے حامی نہ صرف چور ، ڈاکو اور انتہائی نااہل ہیں بلکہ یہ پاکستان کی تباہی کے ذمہ دار بھی ہیں ۔
دوسرے مرحلے میں جب مذکورہ لیڈر کو ایک پارلیمانی اور قانونی طریقہ کار کے مطابق اقتدار سے محروم ہونا پڑا تو اس پروجیکٹ اور پروپیگنڈا مشینری کے ذریعے پاکستان کے بعض اہم ترین اداروں کو ٹارگٹ بنایا شروع کیا گیا اور ان اداروں میں نہ صرف پھوٹ ڈالنے کی کوشش کی گئی بلکہ ان کے سربراہان کو متنازعہ بنانے کے لیے ان کی کردار کشی کی مہم چلائی گئی ۔ اس مرحلے کے دوران غیر ملکی پروپیگنڈا مشینری اور انویسٹمنٹ کو بڑے فریم ورک میں استعمال کیا گیا جس کے لئے بڑی سرمایہ کاری کی گئی ۔ اس تمام تر صورت حال کو پاکستان کے سنجیدہ حلقے اور ادارے بہت غور سے مانیٹر کررہے تھے اور جب پروپیگنڈا مشینری اور اس کی تمام انویسٹمنٹ پوری شدت کے ساتھ استعمال کرکے خود کو ایکسپوز کردیا گیا تو ریاست نے تیزی کے ساتھ حرکت میں آنا شروع کیا اور اب بہت سی چیزیں نہ صرف واضح طور پر دکھائی دینے لگی ہیں بلکہ کاؤنٹر اسٹریٹجی بھی بہت واضح اور عملی شکل اختیار کرگئی ہے ۔ اس تمام گیم کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے عوامی رائے اور شمولیت کے ذریعے ایک مؤثر آپشن کے طور پر 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات کا انعقاد انتہائی اہم کا حامل ایونٹ ہے۔ اس ایونٹ کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے اور اس مقصد کے لیے مخصوص ہتھیار استعمال کئے جارہے ہیں ۔ اگر چہ اب اہل ریاست اور اہل سیاست دونوں بہت الرٹ ہیں اس کے باوجود کوشش کی جائے گی کہ انتخابی عمل کو ایک نئی پروپیگنڈا مشینری کے ذریعے نہ صرف متنازعہ بنایا جائے بلکہ ان اپنے عالمی اور علاقائی اتحادیوں اور حامیوں کے ساتھ ملکر سبوتاژ کیا جائے جو کہ بعض مشترکہ مقاصد کی حصول کے لیے پاکستانی ریاست اور معاشرے پر حملہ آور ہیں ۔ اس تمام صورتحال میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ان خطرناک مقاصد کا از سر نو ادراک کرتے ہوئے منظم صف بندی کی جائے اور اس بات کو تمام ذرائع استعمال کرتے ہوئے یقینی بنایا جائے کہ آیندہ کے لیے کسی کو ایسا کرنے کا موقع نہ ملے۔

Prime Minister's visit to Peshawar and war against terrorism

وزیراعظم کا دورہ پشاور اور دہشت گردی کے خلاف جنگ

عقیل یوسفزئی
نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے گزشتہ روز صوبائی دارالحکومت پشاور کا دورہ کیا جس کا مقصد دہشت گردی کی جاری لہر کے دوران فورسز خصوصاً پختونخوا پولیس کی قربانیوں اور کامیابیوں کو خراج عقیدت پیش کرنا تھا. انہوں نے اس موقع پر ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پولیس اور دیگر فورسز نے دہشت گردی کے خاتمے کیلئے جو قربانیاں دی ہیں وہ نہ صرف یاد رکھی جائیں گی بلکہ انہی قربانیوں کا نتیجہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کامیابی سے ہمکنار ہوکر ایک فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوگئی ہے اور اب اس کی کامیابی کا اعلان کرنا باقی ہے. ان کے مطابق ہم شہداء کے علاوہ اس صوبے کے مقروض ہے کیونکہ اس صوبے نے پاکستان کی سلامتی اور استحکام کی جنگ لڑی ہے اور اس مقصد کیلئے فورسز کے علاوہ عوام نے بھی بے پناہ قربانیاں دی ہیں. ان کے بقول چھپے ہوئے حملہ آوروں کے ساتھ کسی قسم کی رعایت نہیں برتی جائے گی اور اگر وہ اتنے ہی بہادر ہیں تو سامنے آئے اور مقابلہ کریں.
اس میں کوئی شک نہیں کہ خیبر پختونخوا کو گزشتہ 25 برسوں سے مسلسل جنگ، کشیدگی اور بدامنی کا سامنا ہے اور اس جنگ میں ہزاروں شہریوں اور فورسز نے جانوں کی بے مثال قربانیاں دی ہیں تاہم اس تلخ حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ ان قربانیوں کے باوجود یہاں کے عوام اور فورسز کو وہ مقام نہیں دیا گیا جس کے یہ مستحق ہیں. اس پر ستم یہ کہ 9 مئی کے واقعات میں ملوث ایک پارٹی نے جہاں حملہ آوروں کو ” رعایتیں” دیں وہاں اس پارٹی کی حکومت نے فورسز کی سہولیات، تربیت اور سازوسامان کے لیے وفاقی حکومت کی جانب سے دی جانے والی رقوم کو فورسز کی بجائے نام نہاد ترقیاتی منصوبوں پر اڑاکر اپنے سیاسی مقاصد کی تکمیل کا مجرمانہ رویہ اختیار کیا جس کے باعث ہمارے سینکڑوں جوان نشانہ بنتے گئے. ایک سرکاری دستاویز کے مطابق تبدیلی والی سرکار نے تقریباً 400 ارب روپے دوسرے کاموں پر خرچ کئے اور یہ لوگ اس پر کھبی نادم بھی نہیں دکھائی دیے. اس پر ستم یہ کہ موجودہ نگران حکومت سمیت کسی بھی وفاقی حکومت نے جنگ ذدہ پختونخوا کو اضافی فنڈز تو ایک طرف اپنے ذمے صوبے کی واجب الادا پیسے بھی ادا نہیں کئے. ایک اندازے کے مطابق وفاقی حکومت اور اس کے بعض اداروں کے ذمے پختونخوا کے تقریباً 2000 ارب سے زائد رقم واجب الادا ہے مگر ادائیگی میں مسلسل ٹال مٹول سے کام لیا جاتا ہے.
دوسری جانب وزارت خارجہ کی ترجمان نے گزشتہ روز ایک بریفنگ کے دوران واضح کیا کہ پاکستانی ریاست کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ کسی بھی قیمت پر کسی مذاکراتی عمل کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی. ان کے مطابق مولانا فضل الرحمان کو افغانستان جانے سے قبل اس ضمن میں ان کی خواہش پر درکار بریفنگ دی گئی تھی تاہم وہ اپنے طور پر افغانستان گئے ہیں.
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کو مسلسل حملوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور معاملہ اتنا سادھا نہیں جتنا سمجھا جاتا ہے تاہم یہ بات خوش آئند ہے کہ تمام تر دو طرفہ کارروائیوں کے باوجود صوبے میں سیاسی اور انتخابی سرگرمیاں جاری ہیں اور اس سے بھی بڑھ کر اچھی بات یہ ہے کہ ضم اضلاع سمیت دیگر علاقوں میں اقتصادی بحران اور نگران حکومت کی محدود مینڈیٹ کے باوجود ترقیاتی منصوبوں کا سلسلہ بھی جاری ہے.

Presentation1

باجوڑ حملہ، مولانا کا دورہ اور الیکشن کی تیاریاں

عقیل یوسفزئی
حسب سابق باجوڑ میں ایک پولیس وین کو ایک بار پھر پیر کی صبح اس وقت نشانہ بنایا گیا جب تقریباً 30 پولیس اہلکار انتہائی ٹھنڈ کی حالت میں انسداد پولیو مہم کے سلسلے میں سیکیورٹی دینے تحصیل ماموند کے علاقے میں سفر پر تھے. گاڑی کو ایک طاقتور آئی ڈی بلاسٹ کے ذریعے نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں 5 سے 6 پولیس اہلکار شہید اور 20 سے زیادہ زخمی ہوگئے جن میں 7 کی حالت نازک ہے اور ان کو مناسب علاج کے لیے ہنگامی طور پر پشاور منتقل کر دیا گیا ہے. مقامی صحافی فضل الرحمان نے رابطے پر بتایا کہ شہداء اور زخمیوں میں سے اکثریت لوکلز کی تھی جس کے باعث عوام میں دہشت گردوں کے خلاف غصہ بڑھتا دکھائی دیا اور سوگ کی صورتحال پیدا ہوئی. تاہم ان کا کہنا ہے کہ عوام، سیاسی قائدین اور فورسز کا مورال بلند رہا اور مسلسل حملوں کے باوجود سیاسی اور انتخابی سرگرمیاں جاری ہیں. ضم اضلاع کے لیے نگران صوبائی وزیر ڈاکٹر عامر عبداللہ نے رابطے پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ یہ پاکستان بالخصوص ہم پشتونوں کی ناسمجھی اور بدقسمتی ہے کہ اگر ایک طرف ہمیں مسلسل دہشت گردی کا سامنا ہے تو دوسری طرف انسداد پولیو کے خاتمے کی کوششوں کو بھی ناکام اور متنازعہ بنانے کا سلسلہ کافی عرصہ سے جاری ہے. ان کے مطابق سیکورٹی چیلنجز کے باوجود حکومت انتخابات کے بروقت انعقاد کے لئے تیار اور پرعزم ہے جبکہ ضم قبائلی علاقوں میں شرح خواندگی بڑھانے سمیت متعدد ترقیاتی منصوبوں پر کام تیز کردیا گیا ہے. جن میں ” علم د ٹولو دپارہ” جیسا منصوبہ بھی شامل ہے.
دوسری جانب مولانا فضل الرحمان اور ان کے وفد کا دورہ افغانستان سب کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے اور توقع کی جارہی ہے کہ اس سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان موجود کشیدگی میں کمی واقع ہوگی. نامور مذہبی سکالر محمد اسرار مدنی کے مطابق اس کاوش کو ہم مذہبی سفارت کاری کا نام دے سکتے ہیں اور توقع کی جارہی ہے کہ اس کے بہتر نتائج برآمد ہوں گے. ان کی رائے میں وفد میں جے یو آئی کے علاوہ بعض دیگر حلقوں کے علماء بھی شامل ہیں. اسرار مدنی کے مطابق ٹی ٹی پی کے علاوہ داعش بھی نہ صرف یہ کہ پاکستان ،ایران اور افغانستان کے لئے ایک بڑے خطرے کی شکل اختیار کرچکی ہے بلکہ یہ شدت پسند قوت اس کے مخالف مسالک سے تعلق رکھنے والے مذہبی حلقوں کے لیے بھی بڑا خطرہ بن گئی ہے. انسدادِ پولیو کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ تمام اہم علماء اور عالمی شہرت کے حامل مذہبی مراکز پولیو کے قطرے نہ صرف جایز بلکہ لازمی قرار دے چکے ہیں اس کے باوجود اگر اس کی مخالفت کی جارہی ہے تو یہ ایک افسوسناک طرزِ عمل ہے جس کا تدارک ہونا چاہیے.

Radio Pakistan building burnt in pti protest 2023

نو مئی کے ذمہ داروں سے رعایت کیوں؟

عقیل یوسفزئی
یہ بات قابل تشویش ہے کہ سات آٹھ مہینے گزرنے کے باوجود 9 مئی کے ذمہ داروں کے خلاف اس نوعیت کی کوئی موثر کارروائی نہیں کی جاسکی جس کی توقع یا ضرورت تھی. اب بھی اس پارٹی کے عہدیداروں کو عدالتوں کی جانب سے تھوک کے حساب سے نہ صرف یہ کہ ضمانتیں مل رہی ہیں بلکہ ان کو 8 فروری کے انتخابات میں حصہ لینے کی راہیں بھی ہموار کی جارہی ہیں جس پر دوسری پارٹیوں کے علاوہ عوام کی بڑی تعداد بھی شدید اعتراض کرتے دکھائی دے رہی ہے. کمال کی بات یہ ہے کہ 9 مئی کے واقعات میں ملوث افراد اور لیڈرز نہ صرف ان واقعات کی کھل کر مذمت نہیں کررہے بلکہ ریاستی اداروں کے خلاف اب بھی منفی پروپیگنڈا میں مصروف ہیں اور اپر سے یہ شکوہ بھی کررہے ہیں کہ ان کو الیکشن میں درکار مواقع فراہم نہیں کئے جارہے. یہ بہت عجیب قسم کی بات ہے کہ جو سینکڑوں لوگ ان واقعات میں ملوث ہونے کے باعث مفرور ہیں یا نام نہاد عدالتوں سے ضمانتوں پر ہیں اگر الیکشن کمیشن طریقہ کار کے مطابق ان کے کاغذات نامزدگی مسترد کرتا ہے تو اس پر شور شرابہ کیا جاتا ہے. اگر عدالتوں نے ان کو رعایتیں نہیں دی ہوتیں تو ان کو ریاست کے خلاف مزید پروپیگنڈا اور سازشوں کی ہمت نہیں ہوتی. آج اگر ایک طرف پاکستان کو بدترین دہشت گردی کا سامنا ہے تو دوسری طرف اسے ایسے شرپسندوں کی سرگرمیوں کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے. حالت یہ ہے کہ یہ لوگ سیکیورٹی فورسز کے ان شہداء کا بھی مذاق اڑانے سے گریز نہیں کررہے جو کہ روزانہ کی بنیاد دہشت گرد حملوں کا نشانہ بنتے ہیں. مذکورہ پارٹی کے “کی بورڈ واریررز” فورسز اور ریاستی اداروں کے خلاف مسلسل پروپیگنڈا میں مصروف عمل ہیں. اور غالباً یہی وجہ ہے کہ سینیٹ نے گزشتہ روز ایسے عناصر کے خلاف سخت اقدامات کی قرارداد منظور کرلی تاکہ ان کی شرپسندی کا راستہ روکا جائے. وقت کا تقاضا ہے کہ بغیر کسی تاخیر اور رعایت کے ان عناصر کو قابو کرکے عبرت کا نشان بنایا جائے اور ان کو عدالتوں کی جانب سے جو رعایتیں مل رہی ہیں اس سلسلے کا بھی راستہ روک دیا جائے.

Taliban attack South Waziristan Tiarza check post

سال 2023 میں سیکیورٹی کی صورتحال

عقیل یوسفزئی
سال 2023 پاکستان بالخصوص خیبر پختونخوا کی سیکورٹی کے حوالے سے بہت مشکل سال ثابت ہوا. اگر ایک طرف 2022 کی طرح اس برس صوبہ پختونخوا اور اس کے بعد بلوچستان کو ریکارڈ دوطرفہ دہشت گرد حملوں کا نشانہ بنایا گیا تو دوسری طرف پاکستان کے نئے آرمی چیف سید عاصم منیر کے چارج سنبھالنے کے بعد فورسز نے دہشت گردی کے خاتمے کیلئے ریکارڈ کارروائیاں کیں اور غالباً اس یکسوئی یا واضح موقف ہی کا ردعمل تھا کہ شدت پسند گروپوں خاص طور پر کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے نہ صرف حملوں کی تعداد بڑھانے کی پالیسی اختیار کی بلکہ اس نے پاک فوج سمیت دیگر سیکیورٹی اداروں کو بطور خاص نشانہ بنایا. اگر ایک طرف ٹی ٹی پی کے حملے بڑھے تودوسری جانب داعش نے بھی پشاور اور باجوڑسمیت تقریباً 49 چھوٹی بڑی کارروائیاں کیں. اسی طرح جہاں ایک طرف بلوچستان کی بلوچ بیلٹ میں قوم پرست مزاحمت کاروں نے کارروائیاں تیز کیں تو دوسری جانب ٹی ٹی پی اور اس کی بعض ذیلی یا اتحادی گروپس نے بلوچستان کی پشتون بیلٹ کو متعدد بار نشانہ بنایا. اس ضمن میں 3 بڑے حملوں میں ژوب میں موجود سیکیورٹی اداروں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا جس کی تحقیقات کے بعد پتہ چلا کہ اس میں متعدد افغان باشندے بھی شامل رہے. اور غالباً اسی کا نتیجہ تھا کہ نومبر میں پاکستان میں غیر قانونی طور پر رہائش پذیر افغانیوں کو نکل جانے کا فیصلہ کیا گیا. دسمبر کے تیسرے ہفتے تک پختونخوا اور بلوچستان سے مجموعی طور پر تقریباً 4 لاکھ 75 ہزار افغان مہاجرین کو نکالا گیا اور یہ سلسلہ اس کے بعد بھی جاری رکھا گیا. پاکستان کے رویے میں اس وقت سختی واقع ہوگئی جب 6 ستمبر 2023 کو ٹی ٹی پی نے 3 مختلف مقامات پر افغان سرزمین سے چترال پر حملہ کیا اور اسی روز افغانستان کے سرحدی حکام نے طورخم بارڈر پر حملہ کیا. دونوں مقامات پر حملہ آوروں کو سخت جواب دیا گیا. تاہم پاکستان اور افغانستان کی تلخی میں بے پناہ اضافہ ہوا کیونکہ یہ حملے ٹی ٹی پی والے افغانستان کی سرزمین سے کررہے تھے. نوبت یہاں تک آپہنچی کہ پاکستان کی جانب سے افغانستان کے تقریباً 6 ان مبینہ علاقوں پر ہوائی حملوں کی اطلاعات زیرِ گردش کرنے لگیں جہاں ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں کی نشاندہی کی گئی تھی.
سال 2023 کے دوران پچھلے برس کے مقابلے میں فورسز کے ساتھ ساتھ سویلین اور سیاسی ورکرز، رہنماؤں کو بھی دہشت گرد حملوں کا نشانہ بنایا گیا.
سیکورٹی چیلنجز کی صورتحال کیا رہی اس کا اندازہ اس رپورٹ سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس برس صرف پختونخوا میں 580 حملے کئے گئے. سال 2022 کے دوران یہ تعداد 495 تھی. ان حملوں میں 475 لوگ شہید ہوئے تو 1070 زخمی ہوگئے. خیبر پختونخوا کے تقریباً 26 اضلاع میں کارروائیاں کی گئیں تاہم جو شہر یا علاقے 2023 میں مسلسل حملوں کی ذد میں رہے ان میں پشاور کے علاوہ قبائلی اضلاع اور ان سے ملحقہ جنوبی اضلاع سرفہرست رہے.
مثال کے طور پشاور کو اس برس 54 حملوں کا نشانہ بنایا گیا جن میں 6 کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ داعش خراسان نے کرائے تھے. سب سے زیادہ حملے ڈیرہ اسماعیل خان میں کرائے گئے جن کی تعداد 87 رہی. ان میں ماہ دسمبر کے دوران کیا گیا وہ خودکش حملہ بھی شامل تھا جس میں ایک فوجی کیمپ کو نشانہ بنایا گیا اور چھت گرنے سے پاک فوج کے تقریباً 2 درجن شہید ہوئے. ردعمل میں فورسز نے 27 دہشت گردوں کو ہلاک کردیا جبکہ اس حملے میں ملوث تقریباً 9 مزید افراد کو دسمبر کے آخر میں گرفتار یا ہلاک کر دیا گیا جن میں تقریباً 4 افغان باشندے بھی شامل بتائے گئے. وزیرستان 79 حملوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہا جبکہ خیبر 72 اور بنوں 33 حملوں کے حساب سے چوتھے نمبر پر رہا.
ایک اور رپورٹ کے مطابق سال 2023 میں خیبر پختونخوا میں پاکستان آرمی کے تقریباً 95 نوجوانوں کو شہید کر دیا گیا جبکہ 130 کے لگ بھگ زخمی ہوگئے کیونکہ پاک فوج نے اس برس فرنٹ پر رہ کر ریکارڈ آپریشن کئے. پختونخوا پولیس کے تقریباً 180 جوان اور افسران شہید جبکہ 410 زخمی ہوگئے. فرنٹیئر کانسٹیبلری بھی حملوں کی ذد میں رہی. ایک حساس ادارے کے ایک اعلیٰ ترین افسر کو بھی وزیرستان میں دوران سفر شہید کیا گیا.
اس برس پاکستان کی سیکورٹی فورسز بالخصوص پاک فوج نے بھی پختونخوا میں انٹیلی جنس بیسڈ ریکارڈ آپریشن کئے جن کی تعداد 2000 کی لگ بھگ رہی. مشترکہ کارروائیوں کے نتیجے میں صرف پختونخوا میں تقریباً 560 دہشت گردوں اور حملہ آوروں کو ہلاک کیا گیا جن میں 36 کمانڈرز بھی شامل تھے. 38 خطرناک کمانڈروں سمیت تقریباً 800 شدت پسندوں، دہشتگردوں کو گرفتار کیا گیا. ان میں دستیاب ریکارڈ کے مطابق 33 افراد کو مختلف عدالتوں سے سزائیں بھی دلوائی گئیں. ایک اور سیکورٹی رپورٹ کے مطابق 2023 کے دوران پختونخوا میں سیکیورٹی اداروں نے تقریباً 100 پلان کردہ حملوں کو ناکام بنایا جن میں تقریباً ایک درجن سے زائد داعش خراسان کے پلان کردہ حملے شامل تھے اور حیرت کی بات یہ ہے کہ داعش کے خلاف سب سے زیادہ کارروائیاں پشاور میں کی گئیں. فورسز کی ایسی ہی کارروائیاں بلوچستان، سندھ اور پنجاب کے مختلف علاقوں میں بھی کی گئیں. 2023 کے دوران ایک اور ٹرینڈ یہ دیکھنے کو ملا کہ شدت پسندوں نے تقریباً تمام حملوں میں جدید امریکی اسلحہ استعمال کیا اور پولیس فورس کو سب سے زیادہ جانی نقصان اس اسلحہ کے استعمال سے پہنچا. اسی تناظر میں 2023 کے وسط میں آرمی چیف اور کور کمانڈر پشاور کی ذاتی دلچسپی اور ہدایات کے مطابق سی ٹی ڈی سمیت پختونخوا پولیس کو جدید سہولیات فراہم کی گئیں اور پاکستان آرمی کی جانب سے پختونخوا بالخصوص قبائلی علاقوں کی پولیس کی جدید انداز میں ٹریننگ بھی کی گئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کہ صرف نومبر اور دسمبر کے مہینوں میں پختون خوا کے 12 مختلف اضلاع میں پولیس نے اپنے تھانوں اور چیک پوسٹوں پر ہونے والے حملوں کو ناکام بنایا.
حملوں کی منصوبہ بندی اور ریکروٹنگ کے علاوہ ان کی فنڈنگ کا تقریباً تمام مکینزم چونکہ افغانستان میں موجود تھا اس لیے پاکستان کا دباؤ کشیدگی کی شکل اختیار کرگیا اور شاید اسی کا نتیجہ رہا کہ ذبیح اللہ مجاہد اور دو دیگر اعلیٰ افغان حکام نے دسمبر کے تیسرے ہفتے میں اعتراف کیا کہ ان کی عبوری حکومت نے بعض حملوں اور سرگرمیوں کے ردعمل میں ٹی ٹی پی کے تقریباً 40 افراد کو گرفتار کرلیا ہے.
دوسری جانب امریکا اور بعض دیگر ممالک کی تشویش میں بھی اس برس غیر معمولی طور پر اضافہ ہوا. ایک رپورٹ میں امریکہ نے انکشاف کیا کہ تحریک طالبان پاکستان کی سرگرمیوں کے باعث جہاں پاکستان کی سیکورٹی کو لاحق خطرات میں اضافہ ہوا ہے وہاں اس رپورٹ میں کھلے عام کہا گیا کہ افغانستان کی طالبان حکومت کی کمزوری یا سرپرستی کے باعث القاعدہ اور داعش کی قوت اور تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے جو کہ امریکہ کے بقول خطے کے علاوہ پوری دنیا کے لئے خطرہ ہے.
دسمبر 2023 کو اس تناظر میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان پھر سے قربت اور اعتماد سازی میں اضافہ ہوا. پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر اپنی ٹیم کے ہمراہ امریکی دورے پر روانہ ہوگئے جہاں انہوں نے نہ صرف یہ کہ امریکہ کے سیکرٹری خارجہ، سینٹکام کے کمانڈر اور دیگر اعلیٰ ترین فوجی، سول عہدے داروں سے ملاقاتیں کیں اور مذاکرات کئے بلکہ انہوں نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سمیت متعدد دیگر اہم شخصیات سے بھی ملاقاتیں کیں اور امریکی میڈیا اور سفارتی حلقوں میں اس قسم کی رپورٹس گردش کرنے لگیں کہ پاکستان اور امریکہ خطے کی سیکورٹی کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لئے ایک نئے کوآپریشن اور روڈ میپ پر کام کرنے لگے ہیں.دوسری طرف افغان حکومت نے دسمبر کی وسط ہی میں جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سے اعلیٰ سطحی رابطے کرتے ہوئے ان کو دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کم کرنے کی کوشش کی پیشکش کی تاہم اس کے ردعمل میں پاکستان کی وزارت خارجہ کی ترجمان نے واضح انداز میں موقف اختیار کیا کہ پاکستان تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ کسی صورت مزاکرات یا رابطہ کاری نہیں کرے گا. اس تمام پس منظر میں اگر دیکھا جائے تو ثابت یہ ہوا کہ 2023 پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ایک فیصلہ کن سال ثابت ہوا تو غلط نہیں ہوگا.

Important decisions at the Corps Commanders' Conference

کور کمانڈرز کانفرنس میں اہم فیصلے

عقیل یوسفزئی
261 ویں کور کمانڈرز کانفرنس جی ایچ کیو راولپنڈی میں منعقد ہوا جس کی صدارت آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے کی. کانفرنس کے بارے میں آئی ایس پی آر کی جاری کردہ بیان کے مطابق ملک کی مجموعی صورتحال کا جائزہ لیا لیا گیا اور پاکستان کی سیکیورٹی کے علاوہ ملک کی معیشت اور 8 فروری کے عام انتخابات جیسے اہم امور پر تبادلہ خیال کیا گیا. دہشتگردوں کے ساتھ کوئی بھی رعایت نہ برتنے کی ریاستی پالیسیوں کو مزید تیز کرنے کے علاوہ افغانستان کی عبوری حکومت کے رویے کا نہ صرف جایزہ لیا گیا اور اس پر تشویش کا اظہار کیا گیا بلکہ دہشت گردی اور شرپسندی کے سہولت کاروں سے بھی کسی قسم کی رعایت نہ برتنے کا عزم بھی ظاہر کیا گیا. کانفرنس میں 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے حوالے سے کہا گیا ہے پاک فوج الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ضرورت اور تجاویز کے مطابق ہر ممکن تعاون کرے گی اور یہ کہ فوج گورننس کے معاملات درست کرنے کے لئے دیگر ریاستی اداروں کی معاونت کا اپنا سلسلہ جاری رکھے گی. اس ضمن میں جرائم کے خاتمے اور اسمگلنگ کی روک تھام کے لئے تعاون کرنے کی پالیسی کا اعادہ کیا گیا.
اس میں کوئی شک نہیں کہ کور کمانڈرز کانفرنس میں جن ایشوز اور معاملات کو ایجنڈے کا حصہ بنایا گیا وہ پوری اجتماعی صورتحال کے تناظر میں اہم مسائل اور چیلنجز ہیں اور یہ بات خوش آئند ہے کہ اعلیٰ عسکری قیادت کو ان حالات میں درپیش مسائل اور چیلنجز کا پورا ادراک ہے. پاکستان ایک اہم دور سے گزر رہا ہے جس میں سیکیورٹی کے معاملات سرفہرت ہیں اور موجودہ قیادت اس ضمن میں نہ صرف یہ کہ زیرو ٹاولرنس کی پالیسیوں پر عمل پیرا ہیں بلکہ روزانہ کی بنیاد پر فورسز کارروائیاں کرنے کے علاوہ قربانیاں بھی دے رہی ہیں. اس ضمن میں تازہ مثال ٹانک کی دی جاسکتی ہے جہاں ایک چیک پوسٹ پر حملے کے دوران فورسز نے ایک اہم کمانڈر نیک محمد کو ہلاک کردیا اور باقی کو فرار ہونا پڑا. 2023 کے دوران فوج سمیت دیگر سیکیورٹی اداروں نے جہاں ریکارڈ کارروائیاں کیں وہاں سینکڑوں نوجوانوں اور افسران نے جانوں کی قربانی بھی دی تاہم یہ بات افسوس ناک ہے کہ اس تمام عرصے کے دوران 9 مئی کے واقعات کی ذمہ دار پارٹی اور اس کے “کی بورڈ واریررز” نے سیکیورٹی اداروں کے خلاف فیک نیوز اور منفی پروپیگنڈا کی مہم جاری رکھی. اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے جس کی روکھ تھام کیلئے مزید سخت اقدامات کی اشد ضرورت ہے. غالباً کور کمانڈرز کانفرنس میں اس مہم کے بارے میں بھی متنبہ کیا گیا ہے.
8 فروری کے انتخابات کے لئے تمام تیاریاں جاری ہیں اور پاکستان کی عسکری قیادت نے بھی اس کے پرامن انعقاد کو یقینی بنانے کیلئے اپنی تعاون کا اعلان کردیا ہے تاہم اسی روز مولانا فضل الرحمان، بلاول بھٹو اور شہباز شریف جیسے اہم لیڈروں نے الگ الگ مقامات پر اپنے بیانات میں نہ صرف اس مخصوص پارٹی کے رویے کو ایک بار پھر شدید تنقید کا نشانہ بنایا وہاں اعلیٰ عدالتوں بالخصوص پشاور ہائی کورٹ کی جانب سے بعض فیصلوں کو عدلیہ کی جانبداری اور مبینہ سہولت کاری کا نام دیا گیا. مولانا فضل الرحمان نے تو پشاور ہائی کورٹ کا نام لیتے ہوئے یہاں تک کہا کہ اگر الیکشن مہم کے دوران ان پر یا کسی اور پارٹی پر کوئی حملہ ہوا تو اس کی ذمہ داری عدلیہ پر عائد ہوگی. ایک عام تاثر یہی ہے کہ عدلیہ بعض سنگین نوعیت کے حساس معاملات کو نہ صرف سطحی لیکر سیاسی فیصلے دے رہی ہے بلکہ ایک مخصوص پارٹی کے ساتھ رعایتیں بھی برتنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے. اس تاثر نے جہاں الیکشن کمیشن اور دیگر اداروں کے کام کو مشکل بنا دیا ہے وہاں عدلیہ کی ساکھ بھی بری طرح متاثر ہورہی ہے. یہ بہت افسوس ناک صورتحال ہے جس سے نکلنے کے لیے اقدامات ہونے چاہئیں.