جاری علاقائی کشیدگی اور وزیر اعلیٰ کے وارنٹ گرفتاری

جاری علاقائی کشیدگی اور وزیر اعلیٰ کے وارنٹ گرفتاری

جاری علاقائی کشیدگی اور وزیر اعلیٰ کے وارنٹ گرفتاری
عقیل یوسفزئی
پاکستان اور افغانستان کے درمیان 16 مارچ کے وزیر ستان حملے کے بعد پیدا ہونے والی کشیدگی پر نہ صرف سیاسی اور عوامی حلقے پریشانی سے دوچار ہیں بلکہ امریکہ اور روس سمیت متعدد دیگر اہم ممالک نے بھی پاکستان سے تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے افغانستان کی عبوری حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ وہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہونے نہ دیں اور دوحہ معاہدے کی پاسداری کو یقینی بنائیں۔ پاکستان کے وزیر داخلہ محسن نقوی نے منگل کے روز اپنے ایک بیان میں پھر سے حملہ آور تنظیموں پر واضح کردیا ہے کہ ان کے ساتھ کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی اور پاکستان کے خلاف جب بھی 16 مارچ جیسی کارروائی ہوگی اس کا انتہائی سخت جواب دیا جائے گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم مہاجرین کو ہر صورت میں واپس بھیجا جائے گا۔
دوسری جانب ایک عدالتی حکم کے ذریعے خیبرپختونخوا کے وزیرِ اعلیٰ علی امین گنڈاپور کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے ہیں جس پر صوبائی حکومت کے ترجمان محمد علی سیف نے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے یہاں تک کہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کو خیبرپختونخوا منتقل کیا جائے ۔ مراد سعید سمیت بعض دیگر رہنماؤں کے خلاف بھی 9 مئی کے واقعات کے تناظر میں اس نوعیت کا فیصلہ سامنے آیا ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ درپیش چیلنجز کے پیشِ نظر فریقین روایتی محاذ آرائیوں کی بجائے تعاون اور تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملک کو بحرانوں سے نکالنے کی کوشش کریں اور میڈیا ، بیانات کے ذریعے ریاستی اور حکومتی معاملات کو مذاق سمجھ کر ڈیل کرنے سے گریز کریں۔

Prime Minister's visit to Peshawar and swearing in of provincial cabinet

وزیراعظم کا دورہ پشاور اور صوبائی کابینہ کی حلف برداری

عقیل یوسفزئی
وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف نے گزشتہ روز متعدد اہم وزراء اور پی ڈی ایم اے سمیت دیگر اداروں کے سربراہان کے ہمراہ پشاور کا اہم دورہ کرتے ہوئے حالیہ بارشوں اور برفباری سے متاثرہ افراد اور خاندانوں میں امدادی چیک تقسیم کئے اور متاثرہ علاقوں کی انفراسٹرکچر کو پہنچنے والے نقصان پر بریفننگ لیکر بحالی سے متعلق اہم اور فوری ہدایات جاری کیں۔ دوسری بار وزارت عظمیٰ کا حلف لینے کے بعد یہ پشاور کا ان کا پہلا دورہ تھا جس سے جنگ زدہ صوبے کے عوام کو بہت اچھا پیغام دیا گیا۔ اس سے ایک روز قبل وہ گوادر کے ہنگامی دورے پر گئے جہاں حالیہ بارشوں نے کافی نقصان پہنچایا ہے۔ وہاں بھی وزیراعظم نے متعدد عملی اقدامات کے نہ صرف اعلانات کیے بلکہ گوادر اور دیگر علاقوں میں موجود مسائل کے حل کے لئے صوبائی حکومت سے تجاویز پر مبنی ایک رپورٹ تیار کرنے کی ہدایت بھی کی۔ اس سے قبل جب انہوں نے عدم اعتماد کے نتیجے میں چارج سنبھال لیا تو بھی انہوں نے نہ صرف خیبرپختونخوا کے ریکارڈ دورے کیے تھے بلکہ انہوں نے اپنا پہلا دورہ وزیرستان کا رکھا تھا جہاں انہوں نے اس وقت کے آرمی چیف اور دیگر اعلیٰ حکام کے ہمراہ سیکورٹی کی صورتحال کے علاوہ علاقے کی تعمیر وترقی کے ایک ہنگامی پیکج کا اعلان بھی کیا تھا۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے اپنے اعلان اور اپنے قائد کی “ہدایات” کے تناظر میں وزیراعظم کا نہ تو استقبال کیا اور نہ ہی انہوں نے اس اہم اجلاس ، ایونٹ میں شرکت کی جس میں وزیراعظم اور ان کی ٹیم شریک ہوئی۔ اس ضمن میں جب ایک نیوز چینل نے نئی صوبائی کابینہ کے ایک وزیر ظاہر شاہ طورو سے رابطہ کیا تو موصوف نے موقف اپنایا کہ وہ اور ان کی حکومت شہباز شریف کو وزیر اعظم تسلیم نہیں کرتے اس لیے یہ رویہ اختیار کیا گیا۔ اس طرزِ عمل کو صوبے کے مخصوص حالات کے تناظر میں کسی بھی دلیل کی بنیاد پر مناسب نہیں قرار دیا جاسکتا کیونکہ صوبائی حکومت کو قدم قدم پر اپنے معاملات چلانے کے لیے وفاقی حکومت کی مدد اور فنڈنگ کی ضرورت ہوتی ہے اور آگے چل کر صوبائی حکومت کے مسائل میں مزید اضافے کے خدشات اس طرزِ عمل کے باعث یقین میں بدلتے نظر آنے لگے ہیں۔
اسی روز گورنر خیبرپختونخوا حاجی غلام علی نے صوبائی کابینہ کے 15 رکنی سکواڈ سے حلف لیا یوں یہ مرحلہ طے پایا گیا تاہم دوسروں کے علاوہ تحریک انصاف کے اندرونی حلقوں کی جانب سے بھی وزراء اور معاونین کی فہرست پر اعتراضات سامنے آنا شروع ہوگئے اور یہ بھی کہا جانے لگا کہ بعض اہم علاقوں کو نمایندگی سے محروم رکھا گیا ہے۔ اگر چہ وزیر اعلیٰ اور سینیئر رہنما کابینہ کے انتخاب کو چیئرمین عمران خان کا فیصلہ قرار دیتے رہے اور حقیقت میں ہوگا بھی اس طرح تاہم نئے سکواڈ میں بعض اہم لیڈرز کو خلاف توقع بری طرح نظر انداز کیا گیا ہے حالانکہ یہ حضرات دعویٰ کرتے ہوئے میڈیا کو مسلسل اطلاعات فراہم کرتے رہے کہ وہ کابینہ کا حصہ ہوں گے۔ جن سینیئر لیڈروں کو ان کے دعوؤں اور توقعات کے برعکس کابینہ سے باہر رکھا گیا ان میں مشتاق غنی ، انور زیب خان ، فضل الٰہی ، کامران بنگش ، تیمور جھگڑا اور شوکت یوسفزئی سرفہرت ہیں۔ آخر الذکر تین لیڈر اسمبلی پہنچنے میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں تاہم بڑے یقین کے ساتھ کہا جارہا تھا کہ ان کو دستیاب طریقہ کار کے مطابق معاونین یا مشیروں کی حیثیت سے کابینہ میں کھپانے کی پالیسی اختیار کی جائے گی مگر ان میں سے کسی کو شامل نہیں کیا گیا جس پر دوسروں کے علاوہ تحریک انصاف کے سنجیدہ حلقے بھی حیرت کا اظہار کرتے دکھائی دیے۔ ان میں سے بعض اتنے پُرامید تھے کہ انہوں نے میڈیا کو اپنے مجوزہ محکموں کے نام تک فراہم کیے تھے مگر سب کو ناکامی سے دوچار ہونا پڑا۔

A journey from armed terrorism to digital terrorism

مسلح دہشت گردی سے ڈیجیٹل دہشت گردی تک کا سفر

عقیل یوسفزئی
پاکستان کے دفاعی ریاستی اداروں نے افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام اور پاکستان کے اندر 9 مئی کے واقعات کے بعد جہاں مختلف محاذوں پر عجیب وغریب چیلنجز کا سامنا کیا وہاں ریاست کو بدترین قسم کے اسپانسرڈ پروپیگنڈا کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ اس صورتحال میں متعدد پالیسیاں اختیار کی گئیں مگر منفی اور جھوٹے پروپگنڈے کو بوجوہ قابو نہیں کیا جاسکا کیونکہ اس کی شدت اور اس پر ہونے والی سرمایہ کاری لامحدود رہیں۔
6 مارچ کو جی ایچ کیو راولپنڈی میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی زیر صدارت 263 ویں کور کمانڈر کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں ملک کو درپیش شدت پسندی اور سیاسی شرپسندی پر نہ صرف یہ کہ تشویش کا اظہار کیا گیا اور یہ کہا گیا کہ فورسز کو تمام معاملات کا پورا ادراک ہے بلکہ واضح انداز میں فیصلہ کیا گیا کہ 9 مئی کے واقعات میں ملوث ملزمان ، ان کی سہولت کاروں ، دہشت گرد گروپوں اور منفی پروپیگنڈا کے ذریعے ملک خصوصاً سیکورٹی اداروں کے خلاف منفی پروپیگنڈا اور مایوسی پھیلانے والوں کے ساتھ کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی۔ یہ بھی کہا گیا کہ فیلڈ کمانڈرز دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں میں مزید اضافہ لائیں۔ جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق فورم نے دوڈوک انداز میں واضح کیا کہ جو عناصر سوشل میڈیا نیٹ ورکس کے ذریعے سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے ریاست کے خلاف پروپیگنڈا کررہے ہیں ان کو معاف نہیں کیا جائے گا اور یہ کہ پاکستان کی سلامتی ، امن اور استحکام کو یقینی بنانے کا نہ صرف یہ کہ عسکری قیادت کو پورا ادراک ہے بلکہ فورسز منفی قوتوں سے نمٹنے کی بھرپور صلاحیت بھی رکھتی ہیں۔
مذکورہ بیانیہ یا پالیسی کو جہاں مستقبل کے منظر نامے میں بہت اہمیت دی گئی وہاں سب پر یہ بھی واضح ہوگیا کہ پاکستان کی ملٹری اسٹبلشمنٹ بعض سیاسی قوتوں ، پروپیگنڈا مشینری اور دہشت گردی میں ملوث گروپوں کے خلاف بعض حلقوں کے دباؤ اور توقعات کے برعکس زیرو ٹاولرنس کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور اس ضمن میں کوئی لچک نہیں دکھائی جائے گی۔ اس تمام صورتحال کے دوران ملک میں ڈیجیٹل دہشت گردی کی اصطلاح بھی سامنے آئی جس کی تشریح کچھ یوں کی گئی کہ پاکستان کو مختلف محاذوں پر سوشل میڈیا نیٹ ورکس کے ذریعے دہشت گردی کی ایک نئی جنگ کا سامنا رہا اور یہ کہ اس جنگ کا مقصد منفی پروپیگنڈا کے ذریعے پاکستان کو ایک جنگ زدہ اور سیاسی عدم استحکام سے دوچار ایسا ملک قرار دینا ہے جو کہ بکھر سکتا ہے۔ بعض ماہرین نے اس جنگ کو جاری روایتی دہشت گردی سے زیادہ خطرناک قرار دیا تو متعدد کا موقف رہا کہ اس تمام گیم اور سرکاری کاری کے پیچھے بعض عالمی اور علاقائی قوتوں کا ہاتھ ہے۔ کور کمانڈر کانفرنس میں اس جانب بھی پیغام دیا گیا اور کہا گیا کہ 6 فروری کے عام انتخابات میں فورسز کا کردار سیکورٹی فراہم کرنے تک محدود تھا اور ان الزامات اور پروپیگنڈے میں کوئی حقیقت نہیں کہ فورسز انتخابی عمل یا نتائج پر اثر انداز ہوتی رہی ہیں۔ اس سے قبل نومنتخب پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں پاکستان تحریک انصاف کے علاوہ محمود خان اچکزئی اور بعض دیگر قوم پرستوں نے بھی فورسز پر انتخابی عمل میں مداخلت کے الزامات لگائے جبکہ اس پارٹی کے نئے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور نے اپنے پہلے بیان میں جہاں پولیس فورس اور بیوروکریسی کو 9 مئ کے واقعات کے تناظر میں کھلے عام دھمکی دی بلکہ انہوں نے 6 مارچ ہی کے روز آڈیالہ جیل میں قید اپنے لیڈر عمران خان سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے 9 مئی کے واقعات کی جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ بھی کیا اور ساتھ میں یہ بھی کہا کہ چونکہ وہ شہباز شریف کو وزیر اعظم تسلیم نہیں کرتے اس لیے وہ ان کے ساتھ نہیں بھیٹیں گے۔ یہ اس جانب واضح اعلان تھا کہ ایک بار پھر جنگ زدہ پختونخوا کو ایک مخصوص ذہنیت کے حامل لیڈر کے سیاسی مقاصد اور دباؤ کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کے سربراہ کے ایسے بیانات سے امن پسند حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی بلکہ پولیس اور بیوروکریسی میں بھی عدم تحفظ کا احساس جنم لینے لگا اور اسی پیش منظر میں بعض حلقوں کی جانب سے صوبے میں گورنر راج نافذ کرنے کی بحث بھی چلنے لگی۔
ایک رپورٹ کے مطابق ماہ فروری میں خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں میں فورسز نے 95 انٹلیجنس بیسڈ آپریشن کیے جس کے نتیجے میں 75 مطلوب دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا جن میں 55 افراد کا تعلق کلعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ بتایا گیا۔ یہ تفصیل بھی اس دوران سامنے آئی کہ زیادہ تر حملوں کے لیے افغان سرزمین استعمال کی ۔ رپورٹ کے مطابق فروری 2024 کے دوران سب سے زیادہ آپریشن شمالی وزیرستان میں کیے گئے جن کی تعداد 14۔ ڈی آئی خان دوسرے نمبر پر رہا جہاں فروری میں 12 انٹلیجنس بیسڈ آپریشن کیے گئے۔ ٹانک اور بنوں میں بھی تقریباً اتنی ہی کارروائیاں کی گئیں۔ اس رپورٹ سے ایک بار پھر یہ ثابت ہوا کہ خیبرپختونخوا کے قبائلی علاقوں اور جنوبی اضلاع میں فورسز اور عوام کو حالت جنگ کی صورتحال کا سامنا ہے۔ ایسے میں کالعدم تحریک طالبان اور عبوری افغان حکومت کے لئے ماضی میں ہمدردی رکھنے والی پارٹی کا صوبہ خیبر پختونخوا میں پھر سے اقتدار میں آنا بہت سی مشکلات پیدا کا سبب سمجھا گیا۔
اس دوران ایک بڑی پیش رفت یہ ہوئی کہ جمیعت علمائے اسلام سمیع الحق گروپ کے ایک وفد نے سابق ایم این اے اور مرحوم مولانا سمیع الحق کے صاحب زادے مولانا حامد الحق کی قیادت میں افغانستان کا ایک دورہ کیا جس کے دوران اس وفد سے ملاقات کرنے والے افغان وزرا اور لیڈروں نے وفد کو بتایا کہ وہ افغان سرزمین کو کسی بھی قیمت پر پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے اور یہ کہ افغان حکومت کو ٹی ٹی پی کی سرگرمیوں پر تشویش لاحق ہے تاہم ان کے بقول اس سلسلے کو روکنے میں انہیں بعض اندرونی مسائل اور رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ وفد میں شامل ممتاز مذہبی اسکالر محمد اسرار مدنی نے ریڈیو سنو پختونخوا کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں کچھ یوں کہا
“ہم نے متعدد وزیروں ، اہم حکومتی حکام اور حقانی نیٹ ورک کے سربراہ سمیت متعدد اہم لوگوں سے اپنے دورے کے دوران تفصیل کے ساتھ تبادلہ خیال کیا اور اس بات پر زور دیا کہ دونوں اسلامی اور پڑوسی ممالک کے درمیان کشیدگی کے اسباب کا جائزہ لیتے ہوئے اس کشیدگی کا خاتمہ ہونا چاہئے۔ اس کے جواب میں دوسری جانب سے ہماری تشویش اور تجاویز کا خیر مقدم کیا گیا اور اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ افغانستان کی موجودہ قیادت اور حکومت اس بات کی قائل ہیں کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونی چاہیے تاہم تمام لیڈرز اور وزراء نے بعض اندرونی معاملات اور مشکلات کا ذکر کیا اور یہ یقین دہانی بھی کرائی کہ ٹی ٹی پی کے مسئلے پر وہ پاکستان کے خدشات اور مطالبات کے تناظر میں سنجیدگی کے ساتھ ایسا لائحہ عمل تیار کرنے کی کوشش کررہے ہیں جس کے نتیجے میں موجود کشیدگی اور تلخی کا خاتمہ ممکن ہوسکے”۔
اس ضمن میں سابق نگران وفاقی وزیر اور عالمی شہرت یافتہ ڈایریکٹر جمال شاہ نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ اور اس کے بعض اتحادی پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے اور سی پیک سمیت متعدد دیگر اہم پراجیکٹس کو سبوتاژ کرنے کی پالیسی اور کوششوں پر عمل پیرا ہیں اور پاکستان کو اسی تناظر میں دہشت گردی کے علاوہ ایک منظم پروپیگنڈا وار کا بھی سامنا ہے۔ جمال شاہ کے مطابق پاکستان ان مسائل سے بعض کمزوریوں اور چیلنجر کے باوجود نمٹنے کی صلاحیت رکھتا ہے تاہم افسوسناک آمر یہ ہے کہ جاری جنگ سے دو اہم صوبے یعنی خیبرپختونخوا اور بلوچستان سب سے زیادہ متاثر ہورہے ہیں اس پر ستم یہ کہ خیبرپختونخوا میں ایک بار پھر تحریک انصاف برسر اقتدار آئی ہے جو کہ نہ صرف شدت پسندوں کی حامی رہی ہے بلکہ 9 مئی کے واقعات کی شرپسندی میں بھی براہ راست ملوث رہی۔ ان کے بقول اس تمام صورتحال میں چین اور روس جیسے اہم ممالک کا پرو پاکستان رول اور غیر معمولی دلچسپی انتہائی اہم ہے اس لیے توقع رکھنی چاہیے کہ پاکستان اس جنگ میں اکیلا نہیں ہوگا اور افغانستان کے ساتھ بھی تعلقات اور معاملات جلد بہتر ہو جایئں گے۔
سینیر تجزیہ کار حسن خان کے مطابق پاکستان خصوصاً خیبرپختونخوا کو متعدد بڑے چیلنجز کا سامنا ہے جس میں دہشت گردی ، سیاسی شر پسندی اور بیڈ گورننس سرفہرت ہیں تاہم اس سے بھی بڑھ کر تشویش ناک بات یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف اس جنگ زدہ صوبے کو ایک بار پھر عمران خان کے سیاسی اور شخصی مفادات کے لیے وفاقی حکومت کے خلاف استعمال کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے جس سے نہ صرف یہ کہ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ متاثر ہوگی بلکہ صوبے کے معاشی اور انتظامی معاملات بھی بگڑیں گے۔ ان کے بقول افغانستان کے حکمرانوں ، میڈیا اور عوام کی طرح پاکستان کے بعض قوم پرست حلقے اور اب تحریک انصاف بھی تمام مسائل کی ذمہ داری پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ پر ڈالنے کے مرض میں مبتلا ہیں اور اس صورتحال سے دیگر پاکستان مخالف قوتیں بھی فایدہ اٹھاتی آرہی ہیں۔ اس سلسلے کا نوٹس لینا چاہیے تاکہ معاملات کو درست کیا جائے۔ سینیئر تجزیہ کار عارف یوسفزئی کے مطابق پاکستان کی اکثر سیاسی پارٹیاں چند محدود خاندانوں اور گروہوں کے مفادات کے تحفظ کے رویہ پر عمل پیرا ہیں اور جب یہ لوگ اقتدار میں آتے ہیں تو یہ ملک اور عوام کی بجائے اپنے مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانے کی کوشش کرتے ہیں اسی کا نتیجہ ہے کہ سیکورٹی چیلنجز اور معاشی استحکام سے متعلق اہم ایشوز پر بھی وہ سنجیدگی نہیں دکھائی جاتی جس کی ضرورت ہے۔ ان کے بقول سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے پاکستان کے سیکورٹی اداروں کو ٹارگٹ کرنے کی مہم معاملات کو پیچیدہ اور مشکوک بنانے کی راہ ہموار کرتی ہے اور اس رویے کو حقیقت پسندانہ انداز میں ڈیل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اندونی استحکام اور قومی مفادات کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔
اس تمام صورتحال میں یہ اندازہ لگانے میں کوئی مشکل پیش نہیں آرہی کہ پاکستان کو مختلف چیلنجر کے باوجود بعض بنیادی مثبت آپشنز بھی دستیاب ہیں اور اگر بعض غیر مروجہ اور غیر مقبول فیصلوں کا رسک لیا جائے تو بہتر نتائج برآمد ہوں گے۔ ان فیصلوں میں سوشل میڈیا کے غیر ذمہ دارانہ استعمال کی روک تھام کا اقدام سرفہرت ہے کیونکہ پاکستان کی سیاست اور معاشرت کو اس بے لگام سلسلے نے تباہ کرکے رکھ دیا ہے اور شاید اسی تناظر میں نہ صرف یہ کہ کور کمانڈر کانفرنس میں واضح موقف لیا گیا بلکہ بعض سنجیدہ حلقے بھی سوشل میڈیا کے کے لیے بعض سخت شرائط طے کرنے کو ناگزیر قرار دیتے دکھائی دیے۔

Shahbaz Sharif elected Prime Minister for the second time

شہباز شریف دوسری بار وزیر اعظم منتخب

عقیل یوسفزئی
وزارت عظمیٰ کے لئے مسلم لیگ ن کے نامزد امیدوار میاں شہباز شریف قومی اسمبلی سے 201 ووٹ لیکر دوسری بار وزیر اعظم منتخب ہوگئے ہیں ۔ ان کے مدمقابل امیدوار تحریک انصاف کے عمر ایوب خان نے اس اہم دوڑ میں 102 ووٹ حاصل کئے ۔ میاں شہباز شریف کو ان کی اپنی پارٹی کے علاوہ دو اہم اتحادی جماعتوں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نے بھی سپورٹ کیا جبکہ جے یو آئی ف اور بی این پی نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا ۔ منتخب ہونے کے بعد نو منتخب وزیراعظم نے تقریباً 2 گھٹنے کی اپنی طویل تقریر کے دوران پاکستان کو درپیش اقتصادی چیلنجز پر تفصیلی بحث کی اور موقف اختیار کیا کہ ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر ملک کو سیاسی اور معاشی چیلنجز سے نکالنے کے لیے سب مل کر آگے بڑھیں ۔ مگر اس کے جواب میں ہارنے والے امیدوار اور پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی سیکرٹری جنرل عمر ایوب خان نے کوئی مثبت جواب دینے کی بجائے تصادم پر مشتمل بیانیہ پیش کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ہم آپ کو دن میں تارے دکھادیں گے ۔ موصوف نے اس کے باوجود انتخابات کو مسترد کردیا کہ وہ اپنی جیت کا کریڈٹ بھی لیتے آرہے ہیں اور خیبرپختونخوا میں ان کی حکومت نے کام بھی شروع کردیا ہے ۔ موصوف نے پاکستان کے استحکام اور ترقی کے لیے عمران خان کو ناگزیر قرار دے کر حسب معمول بہت مبالغہ آمیز تقریر کی تاہم وہ یہ بتانے میں ناکام رہے کہ جب ملک پر ان کی حکمرانی تھی اور ان کی حکومت کو اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی حاصل تھی تب انہوں نے پاکستان کے لئے کیا کچھ ڈیلیور کیا ۔ وہ یہ فریاد کرتے نظر آئے کہ 9 مئی کے بعد ان کی پارٹی پر ” ظلم ” کے پہاڑ توڑے گئے تاہم انہوں نے اسمبلی فلور پر ان واقعات کی کھل کر مذمت بھی نہیں کی ۔ ایسا ہی رویہ پارٹی کی ایک خاتون رہنما شاندانہ گلزار کا بھی مسلسل دیکھنے اور سننے کو ملتا آرہا ہے اور لگ یہ رہا ہے کہ ہمارے متعلقہ اداروں نے خوف پر مبنی جو پالیسی 9 مئی کے واقعات کے بعد اختیار کی تھی سب کو اس کے نتائج اب ایک نئی شکل میں بھگتنے پڑیں گے ۔ بہت سوں کو تو مزہ اس وقت آئیگا جب خیبرپختونخوا کی حکومت پہلے سے بھی زیادہ شدت کے ساتھ عمران خان کی ہدایات کے مطابق مرکزی حکومت اور اداروں پر سرکاری وسائل کے ساتھ حملہ آور ہوگی ۔ پشاور میں اس وقت ان تمام افسران کی پروفایلنگ جاری ہے جنہوں نے 9 مئی کے واقعات کے بعد ریاستی احکامات کے مطابق کارروائی کی جبکہ اپنے ہم خیال افسران کو دوبارہ لانے کی تیاریاں شروع کی گئی ہیں ۔ یہ صورت حال آگے جاکر کیا رخ اختیار کرتی ہے اس کا اندازہ لگانے کے لیے کسی لمبی سوچ بچار یا مغز ماری کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔

Challenges facing the province and speech of the Chief Minister

صوبے کو درپیش چیلنجز اور وزیر اعلیٰ کی تقریر

عقیل یوسفزئی
خیبرپختونخوا کے نو منتخب وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے اپنی پہلی باضابطہ تقریر میں کہا ہے کہ 9 مئی کے واقعات میں ملوث ” ملزمان” کے ساتھ پولیس نے جو کچھ کیا ہے اگر اس میں سے کچھ ” غلط” نکل آیا تو متعلقہ پولیس افسران کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی ۔ انہوں نے جس دوڈوک الفاظ میں چیف ایگزیکٹیو کے طور پر اپنی پارٹی وابستگی کو صوبے کے اجتماعی مفادات پر ترجیح دینے کی پالیسی اپنائی وہ یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ آگے جاکر وہ اس جنگ زدہ صوبے کے ساتھ کیا کچھ کرنے والے ہیں ۔ ان کے انداز تخاطب نے پولیس فورس اور دیگر اداروں کے افسران کے علاوہ ان حلقوں کی تشویش میں بھی اضافہ کردیا ہے جو کہ صوبے کے سیکورٹی چیلنجز اور معاشی بدحالی سے پریشان ہیں ۔ وہ صوبے کے چیف ایگزیکٹیو سے ایک پارٹی کے کارکن زیادہ دکھائی دیے اور شاید عمران خان کی جانب سے ان کی نامزدگی اور پسندیدگی کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ موصوف تصادم اور کشیدگی کا راستہ اختیار کرکے آگے بڑھیں گے ۔ جس پولیس فورس کو انہوں نے اسمبلی فلور پر دھمکیاں دی ہیں اس فورس نے ہزاروں اہلکاروں اور سینکڑوں افسران کی قربانی دے کر اس صوبے میں امن کے قیام کو دیگر فورسز کے ساتھ مل کر ممکن بنایا۔ اس تقریر سے اس فورس کے شہداء کے لواحقین اور فرائض سرانجام دینے والوں کو جو دکھ پہنچا ہوگا اس کا شاید موصوف اور ان کے لیڈر کو احساس نہیں ہورہا ۔ ان کو پہلا کام تو یہ کرنا چاہیے تھا کہ وہ چارسدہ جاکر ایس پی اعجاز خان شہید کے ورثاء سے اظہار تعزیت کرتے مگر انہوں نے الٹا اس فورس کو دھمکیاں دیں۔ یہ تو اچھا ہوا کہ فرنٹیئر کور کے سربراہ اور گورنر پختونخوا نے متاثرہ خاندان کو وزٹ کیا ورنہ دیگر تو لاتعلقی ہی کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں ۔ اس تمام صورتحال کے نتائج اور اثرات صوبے کو بھگتنے پڑیں گے اس میں کوئی شک ہی نہیں ہے۔ عین اسی نوعیت کے خیالات کا اظہار جنید اکبر خان نے قومی اسمبلی کے اپنے خطاب میں بھی کیا ہے۔

Reasons, Factors for Reduction in Terrorist Acts

دہشت گرد کارروائیوں میں کمی کے اسباب، عوامل

عقیل یوسفزئی
یہ بات کافی حد تک خلاف توقع لگ رہی ہے کہ 8 فروری کے عام انتخابات کے بعد خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں دو ڈھائی برسوں سے چلی آنیوالی بدترین دہشت گردی میں غیر معمولی کمی واقع ہوئی ہے اور اس پر عام لوگوں کے علاوہ دہشت گردی پر کام کرنے والے ماہرین اور تجزیہ کار بھی حیرت کا اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ الیکشن کے انعقاد سے ایک آدھ دن قبل بلوچستان کے 3 اضلاع میں تین بڑے حملے کئے گئے جن کے دوران دو پارٹیوں اور امیدواروں کے دفاتر کو نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں تقریباً 50 لوگ شہید اور شدید زخمی ہوگئے۔ اس سے چند روز قبل بلوچستان کے علاقے مچھ میں بڑے پیمانے کا ایک حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں 6 سیکورٹی اہلکار اور 2 شہری شہید ہوئے۔ فورسز کی جوابی کارروائیوں میں تقریباً 30 بلوچ شدت پسند ہلاک کردیے گئے۔ اسی طرح انہی دنوں خیبرپختونخوا کے علاقے ڈی آئی خان میں پولیس پر بھی شدید نوعیت کا حملہ کیا گیا جس کے باعث متعدد پولیس اہلکار شہید ہوئے تاہم اس تمام عرصے کے دوران دونوں شورس زدہ صوبوں میں فورسز کی جانب سے انٹلیجنس بیسڈ آپریشن جاری رہے اور جنوری ، فروری کے مہینوں میں صرف وزیر ستان ، ٹانک ، بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان میں فورسز نے تقریباً 26 انٹلیجنس بیسڈ آپریشن کیے۔
دہشتگری پر کام کرنے والے ماہرین کے مطابق ماضی قریب کے لاتعداد حملوں کے برعکس سال 2024 کے ابتدائی دو مہینوں کے دوران حملوں کی تعداد میں غیر معمولی کمی واقع ہونے کے متعدد اسباب ہوسکتےہیں تاہم سب سے بڑی وجہ یہ بتائی جاسکتی ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان انتخابات کے بعد قایم ہونے والی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی مجوزہ پالیسی یا طرزِ عمل کا مشاہدہ اور انتظار کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا رہی۔ ان کے بقول خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی ایک بار پھر صوبائی حکومت کے قیام کے باعث ان کو ماضی کی طرح بعض رعایتیں مل سکتی ہیں اور حملہ آور گروپ اس مجوزہ حکومت کے قیام کے بعد کی صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان اس وقفے سے فایدہ اٹھانے کی پالیسی کے تحت اپنی تنظیمی اور جنگی حکمت عملی کی از سر نو ترتیب کی کوشش میں مصروف عمل ہیں۔ جبکہ بعض کے مطابق حملوں میں کمی سیکورٹی فورسز کی مسلسل کارروائیوں کے باعث ممکن ہوئی ہے۔
باخبر نوجوان صحافی عرفان خان کے مطابق حملوں میں کمی واقع ہونے کے متعدد اسباب ہیں۔ ان کے بقول کالعدم تحریک طالبان پاکستان کو تنظیمی طور پر شدید نوعیت کے اختلافات کا سامنا ہے اور سب سے بڑے گروپ کے سربراہ کی قیادت اور پالیسیوں پر سخت اعتراضات کیے جارہے ہیں۔ ان کے بقول اختلافات کے علاوہ فورسز کی مسلسل کارروائیوں اور مربوط طریقہ کار نے بھی حملہ آور گروپوں کی طاقت اور صلاحیت کو سخت نقصان پہنچایا ہے اور یہ کارروائیاں کسی وقفے کے بغیر جاری ہیں۔ ان کے مطابق اس پیشرفت یا صورتحال کے باوجود یہ یقین کے ساتھ یہ توقع نہیں رکھی جاسکتی کہ مستقبل میں بھی یہ صورت حال جاری رہے گی کیونکہ بعض حلقوں کے مطابق تحریک طالبان پاکستان اور بعض دیگر گروپ انتخابات کے بعد ” ویٹ اینڈ سی ” کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں اور ان کو یہ امکان بھی نظر آرہا ہے کہ خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی جو حکومت قائم ہونے جارہی ہے اس کے دوران انہیں ماضی کی طرح بعض رعایتیں مل جائیں حالانکہ اب حالات میں پالیسی کے تناظر میں بہت تبدیلی واقع ہوئی ہے اور موجودہ ملٹری لیڈرشپ دہشت گردی کے معاملے پر زیرو ٹاولرنس کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔

hybrid warfare in pakistan

ابھی نہیں تو کھبی نہیں؟

عقیل یوسفزئی
مسلسل قانونی، عدالتی رعایتوں اور ریاستی نرمی کے باوجود جب بعض لوگ ڈالر گیم اور ذاتی مفادات کی خاطر نرمی سے ناجائز فایدہ اٹھانے کے عادی ہوجاتے ہیں تو وہ دوسرے تیسرے مرحلے میں پہلے سے زیادہ خطرناک شکل اختیار کرکے ریاست کو مذاق سمجھنے لگ جاتے ہیں اور اس خوش فہمی میں ایسے عناصر ہر حد پار کرکے خود کو کسی کے سامنے جوابدہ نہیں سمجھتے۔ یہی وہ وقت ہوتا ہے جب رسی کھینچ لی جاتی ہے اور پھر بہت سی خوش فہمیاں دنوں میں دور ہو جاتی ہیں۔ اس ملک کی تاریخ گواہ ہے کہ ایسے عناصر ہر دور میں پیدا ہوئے جن کو یہ خوش فہمی رہی کہ جو کچھ وہ کہتے اور کررہے ہیں وہ درست اور باقی سب غلط ہیں تاہم جب سسٹم تمام تر کمزوریوں کے باوجود حرکت میں آتا ہے تو ایسے عناصر کے ہاتھوں میں کچھ نہیں رہتا اور ان کو لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں۔
پاکستان کو گزشتہ چند برسوں سے ایسی ہی ایک منظم ہائی بریڈ وار سے دوچار ہونا پڑا ہے اور یہ سلسلہ ایک مخصوص لیڈر کی متکبرانہ مائنڈ سیٹ کے باعث سال 2023 کے دوران انتہا تک پہنچ گیا۔ پی ڈی ایم کی حکومت نے بے چینی پھیلانے والے ان عناصر کو بوجوہ قابو نہیں کیا تو اس کی بورڈ انڈسٹری نے تمام حدود وقیود پار کردی اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس ” انڈسٹری” پاکستان کی معاشرت ، سیاست اور آخر میں ریاست کو مذاق کر رکھ دیا۔
گزشتہ ہفتے راولپنڈی کے ایک کمشنر نے ایک انتہائی ڈرامائی قسم کی پریس کانفرنس کرتے ہوئے 8 فروری کے انتخابات کو انتہائی متنازعہ بناتے ہوئے ہمارے سول نظام کی تربیت اور ترتیب دونوں کو ننگا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تاہم گزشتہ روز موصوف نے ” بعد از خرابی بسیار” کمال مہربانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ان کو ایک اور عہدے کی لالچ دے کر مذکورہ ” ڈرامہ بازی” کا ٹاسک دیا گیا تھا۔ موصوف نے الیکشن کمیشن اور دیگر سے معافی بھی مانگی ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ ڈرامے بازیاں کم ہونے کی بجائے بڑھتی کیوں جارہی ہیں اور اس سے جو نقصان ہوتا ہے کیا محض ایک آدھ معافی سے اس کی تلافی ہوسکتی ہے۔ اس کا جواب نفی میں ہے۔ اگر سال 2013 کے نتائج کے بارے ایسے ہی زریں انکشافات کا اظہار کرنے والے الیکشن کمیشن کے ایک عہدیدار افضل خان کو نشان عبرت بنانے کی پالیسی اختیار کی جاتی تو آج اس نئے ” ماڈل” کو یہ سب کہنے اور کرنے کی جرآت نہیں ہوتی۔ ایسے متعدد کردار اور بھی ہیں تاہم افسوسناک بات یہ ہے کہ کسی کو بھی نشانہ عبرت نہیں بنایا گیا۔ پہلے ایسے لوگ ذاتی مفادات کے لیے اس قسم کی حرکتیں کرتے تھے تاہم اب ان پر باقاعدہ انویسٹمنٹ ہوتی ہے اور اس انویسٹمنٹ میں غیر ملکی سرمایہ کاری بھی شامل ہیں۔ اس لیے ایسے عناصر پر مزید خاموش رہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم ملک کو بدانتظامی کے بعد خانہ جنگی کی جانب جان بوجھ کر دھکیل رہے ہیں۔ گزشتہ روز جب سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے تناظر میں نارمل نوعیت کے چند ریمارکس سامنے آئے تو ایسی ہی ایک مخلوق نے اس کو غلط معنی دیکر ایک اور فساد کھڑی کرنے کی باقاعدہ مہم چلائی۔ اچھی بات یہ ہے کہ متعلقہ اداروں نے دیر آید درست آید کے مصداق ایک سیاسی جماعت کے صحافی نما یوٹوبر کو دوسری بار گرفتار کرکے متعدد دیگر پر بھی ہاتھ ڈالا۔ یہ اس جانب ایک اشارہ سمجھا گیا کہ شاید روایتی اداروں کی نااہلی دیکھ کر اب اہم ادارے صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے حرکت میں آگئے ہیں اور ان کی نظر میں اب اس خطرناک عمل کو لگام دینے کا وقت آگیا ہے۔ اس میں دو آراء ہے ہی نہیں کہ پاکستان کی ریاست اور سوسائٹی کو بچانے کے لیے بعض سخت فیصلے کرنے پڑیں گے اور مزید مصلحتوں کا یہ ملک متحمل نہیں ہوسکتا۔

Editorial

حساس معاملات پر پوائنٹ اسکورنگ

عقیل یوسفزئی
پاکستان کو مختلف محاذوں پر متعدد سنگین چیلنجز کا بیک وقت سامنا ہے اور شاید اسی کا نتیجہ ہے کہ معاشرہ شدید نوعیت کے تناؤ سے دوچار ہے اور عدم تحفظ کے علاوہ عدم برداشت کے اجتماعی رویوں نے ملک کے مستقبل کو سوالیہ نشان بنادیا ہے ۔ گزشتہ روز ایک کیس کے سلسلے میں سپریم کورٹ کے ریمارکس کو بعض اہم لیڈرز نے سمجھے بغیر جس انداز سے پولیٹیکل پوائنٹ اسکورنگ کے لیے استعمال کرنے کی روش اختیار کی اور جس انداز میں بعض مذہبی اور ریاست مخالف حلقوں نے ان ریمارکس کو چیف جسٹس آف سپریم کورٹ کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کیا وہ نہ صرف افسوسناک ہے بلکہ اس کے بہت سنگین نتائج برآمد ہوسکتے ہیں جس کا تمام فریقین کو ادراک ہونا چاہئے ۔ ریٹنگ کی چکر میں سوشل میڈیا کے علاوہ مین سٹریم میڈیا نے بھی کیس کی حساسیت کو مدنظر رکھے بغیر جس بد احتیاطی کا مظاہرہ کیا وہ طرزِ عمل پیمرا اور دیگر متعلقہ اداروں کی غیر فعالیت کے باعث بے چینی پیدا کرنے کا سبب بنا ۔ اگر چہ بعض چینلز نے بعد میں اس بگاڑ کو سدھارنے کی کوشش کی تاہم تب تک معاملات ہاتھ سے نکل گئے تھے اور چیف جسٹس کو دوسروں کے علاوہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے بھی سنگین نوعیت کی دھمکیاں دے ڈالیں ۔ 9 مئی کے واقعات کے ذمہ داران نے بھی حسب سابق اس معاملے کو نہ صرف سپریم کورٹ بلکہ پوری ریاست کے خلاف بطور ہتھیار خوب استعمال کیا اور اس قسم کا تاثر دینے کی کوشش کی گئی جیسے اس فیصلے کے پیچھے کوئی بڑی سازش کارفرما ہے۔ یہ صورت حال کسی بھی طور ملک ، اس کے اداروں اور عوام کے لیے قابل قبول نہیں نہیں ہونی چاہیے اور جاری پروپیگنڈا کو لگام دینے کے لیے سخت ریاستی اقدامات کی اشد ضرورت ہے ۔ اس تمام صورتحال پر قابو پانے کیلئے سیاسی اور مذہبی حلقوں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا جبکہ میڈیا کو بھی معاملات کی حساسیت کا ادراک کرتے ہوئے ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا ۔

political leadership in pakistan and political chaos

بے چینی کی انتہا اور ریاستی ذمہ داریاں

عقیل یوسفزئی
یہ بات اب غالباً سب سنجیدہ حلقوں کے لیے ناقابل برداشت ہونے لگی ہے کہ 8 فروری کے انتخابات کے نتائج کی آڑ میں ایک مخصوص پارٹی کے لیڈرز اور ان کے ملکی، غیر ملکی حامی پاکستان کی سلامتی کو مختلف زاویوں اور طریقوں سے نقصان پہنچانے کی ایک منظم منصوبے پر عمل پیرا ہیں اور یہ لوگ خود کو نہ تو کسی قانون کے سامنے جوابدہ سمجھتے ہیں اور نا ہی ان کو اس بات کا کوئی احساس ہے کہ جس ملک نے ان کو سب کچھ دیا یہ اس ملک اور اس کے اداروں، عوام کے ساتھ کیا کرنے جارہے ہیں۔ تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ ان کے عزائم 9 مئی کے واقعات کے دوران ہی بے نقاب ہوگئے تھے تاہم ریاست نے بوجوہ ان کا اس انداز میں محاسبہ نہیں کیا جو کہ دوسرے ممالک میں ایسے واقعات کے بعد ایسے عناصر کا کیا جاتا ہے۔ اس نرم دلی سے ان عناصر نے ناجائز فایدہ اٹھانے کی پالیسی اختیار کی اور اس کا نتیجہ اب پوری قوم کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ 9 مئی کے واقعات نے ہماری سیاست ، ریاست اور معاشرت کو برباد کرکے رکھ دیا تھا اس کے باوجود بہت سے حلقوں کا خیال تھا کہ اس بے ہنگم ہجوم کو یہ سمجھ کر ممکنہ حد تک رعایت دی جائے کہ شاید ان شرپسندوں نے ردعمل کے طور پر یہ راستہ اختیار کیا ہو تاہم یہ خیال قطعی طور پر وقت نے غلط ثابت کیا اور آج انتخابات کے معاملے کو اس ہجوم نے جس طریقے سے ڈیل کرنے کا راستہ اختیار کیا ہے اس نے پورے سسٹم اور سوسائٹی کے مستقبل کو سوالیہ نشان بنادیا ہے۔ عدالتی نظام میں موجود نقائص اور پرتشدد دباؤ نے اس ہجوم کو مزید کچھ کرنے کے مواقع فراہم کیے اور اب حالت یہ ہے کہ پورے معاشرے کو ڈپریشن اور عدم تحفظ کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ جس انداز میں الیکشن کے بعد متعلقہ اداروں اور مخالفین کو نام و نہاد سوشل میڈیا کی ڈالر گیم کے ذریعے فیک نیوز اور انتہائی ننگی جھوٹ پر مبنی مہم کا نشانہ بنایا گیا وہ سلسلہ ناقابل برداشت ہو گیا ہے۔ ریاست اور معاشرت کے ساتھ ساتھ ہماری معیشت کو بھی شدید خطرات لاحق ہوگئے ہیں اس لیے ان عناصر کے ساتھ سختی کے ساتھ نمٹنے کی آواز آج وہ حلقے بھی اٹھانے لگے ہیں جن کی اس ہجوم یا اس کے حامیوں کے ساتھ بوجوہ کچھ ہمدردیاں تھیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ مزید کسی رعایت یا مصلحت کو خاطر میں لائے اور وقت ضائع کئے بغیر ان عناصر کے خلاف ریاست پوری شدت کے ساتھ حرکت میں آکر ان کا صفایا کریں ورنہ دوسری صورت میں خدا نخواستہ یہ ملک کسی سانحے سے دوچار ہوجایے گا اور ایسے میں ہمارے پاس تلافی کی گنجائش بھی باقی نہیں رہے گی۔

تیر پہ ھیر باقی روزگار

تیر پہ ھیر باقی روزگار
عقیل یوسفزئی
پاکستان میں 8 فروری کے انتخابات کے نتیجے میں ملنے والے مینڈیٹ کے تناظر میں انتقال اقتدار کی کوششیں آخری مراحل میں داخل ہوگئی ہیں اور ڈیڈلاک کی جو صورت حال بنی ہوئی تھی وہ سیاسی قائدین کی گزشتہ روز کی ملاقاتوں اور مشاورت کے بعد ختم ہوگئی ہے ۔ حسب توقع مرکز یا وفاق میں مسلم لیگ ن میاں شہباز شریف کی قیادت میں وفاقی حکومت بننے جارہے ہیں۔ اس حکومت کے قیام میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے کیونکہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نے ان کی حمایت کا اعلان کردیا ہے۔ تحریک انصاف کو سخت کنفیوژن کا سامنا ہے کیونکہ یہ نہ تو بعض آئینی اور تکنیکی رکاوٹوں کا کوئی توڑ نکال سکی اور نہ ہی اسے قومی اسمبلی میں درکار مینڈیٹ یا اکثریت حاصل ہے۔ پنجاب میں بھی مسلم لیگ ن کی جماعتی فیصلے کے مطابق حکومت سازی کا معاملہ طے پایا گیا ہے اور یہاں مریم نواز شریف کی زیر قیادت مسلم لیگ ن کی حکومت قائم ہونے جارہی ہے ۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کو اس کی ضرورت سے بھی زیادہ مینڈیٹ اور اکثریت حاصل ہے اس لیے وہاں سرے سے کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ بلوچستان میں بھی مجوزہ حکومت سازی کا خاکہ کافی حد تک واضح ہے ۔ یہاں پیپلز پارٹی ، جے یو آئی اور مسلم لیگ ن آسانی کے ساتھ ایک مخلوط حکومت قائم کرنے کی پوزیشن میں ہیں تاہم یہ طے کرنا باقی ہے کہ وزارت اعلیٰ کا عہدہ کس پارٹی کو دیا جائے گا ۔ شورش زدہ صوبے یعنی خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف نے اپنے صوبائی صدر علی امین گنڈاپور کو وزیر اعلیٰ نامزد کردیا ہے اور بعض آئینی ، تکنیکی رکاوٹوں کے باوجود یہاں تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوگی اگر چہ سیاسی ، صحافتی اور عوامی حلقوں کی جانب سے علی امین گنڈاپور کی نامزدگی پر اس کے پولیٹیکل کیریئر ، جارحانہ پن اور بعض انتہائی تلخ حقائق کے تناظر میں شدید نوعیت کا مخالفانہ ردعمل سامنے آیا ہے اور یہ تاثر بہت عام ہے کہ عمران خان نے بعض سنجیدہ اور سینیئر رہنماؤں کی موجودگی میں گنڈاپور کا انتخاب محض اس بنیاد پر کی ہے کہ وہ ان کو بوقت ضرورت ماضی کے اپنے وزراء اعلیٰ کی طرح شہباز شریف کی زیر قیادت بننے والی حکومت کے خلاف استعمال کرسکے۔ یہ تاثر حقائق پر مبنی ہے اس پس منظر میں صوبے کے عوام شدید نوعیت کی پریشانی اور تشویش سے دوچار ہیں ۔
اس تمام پریکٹس میں سب سے اچھی بات یہ سامنے آئی ہے کہ تقریباً تمام سنجیدہ قائدین اور پارٹیوں نے ملک کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کیلئے نہ صرف یہ کہ بہت بردباری کا مظاہرہ کیا ہے بلکہ اہم ترین قائدین کا چوہدری شجاعت حسین کی رہائشگاہ پر جاکر یکجھتی کا پیغام دینا اس بات کا ثبوت ہے کہ مستقبل میں اسی جذبے کے ساتھ آگے بڑھنے کی کوشش کی جائے گی جو کہ وقت کی ضرورت بھی ہے ۔ اس لیے امید کی جاسکتی ہے کہ پاکستان میں سیاسی اور معاشی استحکام کے ایک نئے سفر کا آغاز ہونے جارہاہے تاہم اس کے لئے پہلی شرط یہ ہے کہ ” ھیر پہ ھیر باقی روزگار” والا فارمولہ اپناکر ماضی کا رونا رونے کی بجائے مستقبل بینی کا عملی مظاہرہ کیا جائے.