پییی

پیر بابا مزار میں بیٹھا انوکھا مصنف

پیر بابا مزار میں بیٹھا انوکھا مصنف

تحریر :عبداللہ یوسفزئی

ضلع بونیر کے بلندوبالا پہاڑوں کے بیچ و بیچ حضرت پیر بابا کا مزار واقع ہے- مزار پر ہمہ وقت عقیدت مندوں کا رش ہوتا ہے- کچھ لوگ دور دراز علاقوں سے آکر حاضری لگاتے ہیں اور پھر راہ پکڑ لیتے ہیں لیکن کچھ عقیدت مند ایسے بھی ہے جو اپنا گھر بار چھوڑ کر دربار کے احاطے میں رہتے ہیں گویا کہ بابا کے قرب سے انھیں یوں سکون ملتا ہو جیسے پیاسے کو پانی پینے سے ملتا ہے- ایسے ہی ایک عقیدت مند کا تعارف آج ہم آپ سے کروائیں گے جو پقینا آپ کو حیرت میں ڈال دے گا کیونکہ ایسے لوگ بہت نایاب ہوتے ہیں۔

دربار کے صحن میں نظر دوڑانے پر آپ کو ایک ایسی شخصیت ضرور ملے گی جس کے ہاتھ میں قلم اور کاپی ہوگی- دنیا سے بے خبر ہوکر سایہ دار درختوں کے نیچے دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھا رہتا ہے- اس شخصیت کا نام انور بیگ باغی ہے جس کی عمر 74 سال ہے- باغی پیر بابا( حضرت پیر بابا کی مناسبت سے علاقے کا نام بھی پیر بابا پڑگیا ) ہی کا رہائشی ہے اور دربار کو اپنا گھر بار مانتے ہیں- بد قسمتی اور غربت کی وجہ سے باغی صرف پرائمری سطح تک پڑھ چکا ہے لیکن یہ ان کا شوق تھا کہ وہ زمینداری کے ساتھ کتب بینی کرتا تھا- یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی صلاحیتوں کو زندہ رکھا- باغی خود تو تعلیم سے محروم رہا لیکن سات بچیوں اور تین بچوں کو ماسٹر تک تعلیم دلواچکے ہیں۔

باغی نے دربار میں ایک چھوٹا سا کمرہ کتابوں کیلئے مختص کیا ہے- یہ کمرہ  لائبریری کی شکل میں سجایا گیا ہے جو نئے آنے والے بندوں کی توجہ حاصل کرتا ہے- دہائیاں  گزر جانے کے باوجود بہت کم لوگ  اسے بطور مصنف جانتے ہیں جو کہ باعث تشویش ہے کیونکہ وہ ادبی دنیا کا عظیم اثاثہ ہے-  جو لوگ باغی کو جانتے ہیں انکا ماننا ہے کہ باغی کا قلم کبھی رک نہیں سکے گا- جب کبھی باغی خود کو اکیلا محسوس کرتا ہے تو لکھائے شروع کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ کئی کتابوں کا مصنف ہے۔

انور بیگ باغی نے وائس آف کے پی کو بتایا کہ وہ پچھلی پانچ دہائیوں سے یہ کام کرہا ہے اور پچاس سے زائد تصانیف لکھ چکے ہیں، یہ تعداد بڑھ بھی سکتی تھی لیکن کئی تصانیف ضائع ہوچکی ہیں کیونکہ ان کتابوں کی کاپیاں موجود نہیں تھیں-  وہ کہتے ہیں کہ ان کی پہلی کتاب پشتو شاعری کا ایک مجموعی ہے جو ” ث م” کے نام سے موجود ہے- کتاب کے عنوان سے متعلق ان کا خیال ہے کہ عنوان دیکھ کر لوگ کتاب پڑھنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کیونکہ جب تک کتاب نہ پڑھی جائے عنوان کی سمجھ نہیں آئے گی- دوسری کتاب “د ورک منزل لٹون” جبکہ تیسری کتاب ” ازغنہ لار” کے نام سے شائع ہوچکی  ہے جو کہ پشتو مزاحیہ افسانوں کا مجموعہ ہے۔باغی بہترین تاریخ دان بھی ہیں ” د بونیر تاریخ” یعنی بونیر کی تاریخ ان کی مشہور کتاب ہے- مقبولیت کی وجہ سے اس کے پانچ ایڈیشن آچکے ہیں، جو دس سال کے طویل دورانیے میں مکمل ہوچکی ہے- ان کے مطابق تاریخ لکھنا سب سے مشکل کام ہے کیوں کہ صحیح معلومات حاصل کرنے کے لئے وقت، سفر اور ریسرچ کی ضروت ہوتی ہے- ان کی تصانیف کی لگ بھگ بارہ ہزار کاپیاں اب تک پورے ملک میں فروخت ہوچکی ہیں- لیکن مالی مشکلات کی وجہ سے بہت کم کاپیاں اسٹاک میں موجودہیں۔ وائس آف کے پی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ اب بھی کئی غیر مطبوعہ تصانیف موجود ہیں جن میں چار اردو اور ایک یوسفزئی اور سوات کی تاریخ پر لکھی گئی کتابیں شامل ہیں، جو دو سال میں لکھی گئیں۔

موصوف نوجوانوں کو مشورہ دیتے ہوئے کہتے ہیں “میں نوجوانوں کو مشورہ دوں گا کہ وہ کتب بینی کا رواج عام کریں-جسکی وجہ سے ہم اس قابل ہوجائیں گے کہ مستقبل میں ڈٹ کر مشکلات کا مقابلہ کرسکیں۔”باغی کا ماننا ہے کہ دنیا میں علم اور محبت پھیلانے کے لئے کتابوں سے محبت ضروری ہے- اس عظیم اور معمر مصنف کے ارادے اب بھی ایک نوجوان کی طرح پختہ ہیں جس کا اندازہ ان کے اس الفاظ سے لگاسکتے ہیں ” میں نے اپنی زندگی اس فن کے لئے وقف کی ہے، جب تک میری رگوں میں خون دوڑتی رہے گی میں لکھتا رہوں گا۔”

جوبائیڈن سے پاکستان کی ممکنہ توقعات

جوبائیڈن سے پاکستان کی ممکنہ توقعات

حال ہی میں امریکہ کے عام انتخابات میں برتری حاصل کرنے والے جوبائیڈن نے باقاعدہ طور پر 48 ویں صدر کی حیثیت سے حلف اٹھا لیا ہے- سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے مسلم ممالک کے شہریوں پر امریکہ میں داخلے پر جو پابندی عائد کی گئی تھی جوبائیڈن نے اسے ختم کرکے مسلم ممالک کو پہلا تخفہ دیا ہے- اسلامی دنیا میں ان کی جو مثبت تصویر بنی تھی جوبائڈن نے اسے مذید تقویت بخش دی ہے- مسلم ممالک سمیت پوری دنیا کی نظریں نومنتخب صدر پر ٹھہری ہوئی ہیں بالخصوص ترقی پذیر ممالک کی جوبائڈن سے کافی توقعات وابستہ ہیں۔

جوبائیڈن سے مثبت توقعات رکھنے والے ممالک کی فہرست میں پاکستان بھی شامل ہے- چند ممکنہ توقعات کا ذکر ہم کریں گے، یقیناً ان میں سے کچھ ایسی توقعات بھی ہیں جو شاید جلدی پوری ہوسکیں لیکن کچھ ایسی بھی ہیں جنکو لے کر مایوسی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

پہلی ممکنہ توقع پاکستان کی کہ امریکہ پاکستان کو گرے لسٹ سے نکلنے میں مدد کرے گا- گزشتہ سال 21 سے 23 اکتوبر تک ہونے والی فنانشل ایکشن ٹاسک فورس  (ایف اے ٹی ایف جو کہ منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی مدد کی روک تھام کا عالمی ادارہ ہے) کے اجلاس میں پاکستان کی طرف سے سفارشات اور پیشرفت کا جائزہ لیا- ایف اے ٹی ایف نے 23 اکتوبر کو یہ کہتے ہوئے پاکستان کو گرے لسٹ میں برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا کہ 27 میں سے چھ سفارشات پر چار مہینے کے اندر عمل کیا جائے یعنی رواں سال کے فروری تک کا وقت دیا گیا- پاکستان ان چھ سفارشات پر جزوی طور پرتو کام کررہا تھا اور اب فروری میں مزید تین حدف حاصل کرلیئے  لیکن ٹاسک ممکل نہ کرنے کی وجہ سے اب جون تک کا وقت دیا گیا ہے پاکستان کو گرے لسٹ سے نکلنے کے لیئے۔ اب منتخب امریکی صدر پاکستان کی ان کوششوں کو کس نظر سے دیکھتے ہیں یہ جون میں معلوم ہوسکے گا۔

دوسری  ممکنہ توقع ہماری یہ ہو گی کہ بائیڈن سرکار عسکری امداد بحال کرے گی – یکم جنوری 2018ء کو ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کے خلاف ٹویٹ کرتےہوئے لکھا کہ پاکستان کو 33 ارب ڈالر سے زائد کی امداد دے کر بیوقوفی کی، پاکستان نے امداد کے بدلے جھوٹ اور دھوکے کے سوا کچھ نہیں دیا بلکہ وہ ہمیں بیوقوف سمجھتا ہے- اس ٹویٹ کے بعد 3 جنوری کو دہشتگردی کے خلاف جنگ کے لئے امریکہ کی طرف سے دی جانے والی امداد میں کٹوتی کردی گئی- اب جوبائیڈن ٹیم کے نامزد دفاعی سربراہ جنرل لائیڈ جے آسٹن نے ایک بیان میں کہا ہے کہ عسکری امداد کی معطلی پاکستان کے تعاون پر اثر انداز ہوئی ہے- اس بیان کے بعد امریکہ کی طرف سے عسکری امداد بحال ہونے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ 

تیسری توقع افغان امن عمل میں داد وصول کرنے کے حوالے سے ہوسکتی ہے- افغان طالبان اور ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان جو معاہدہ ہوا تھا، بائیڈن سرکار نے اس پر عمل درآمد کرنے کا عندیہ تو  دیا مگر اب حالات کچھ خراب ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ دوسری طرف افغان طالبان نے نئی حکومت آنے سے پہلے امید ظاہر کی تھی کہ بائڈن معاہدہ جاری رکھیں گے-  لیکن اس امن عمل میں پاکستان کے کردار کو ٹرمپ انتظامیہ نے ٹھیس پہنچائی تھی جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے تھے- اب پاکستان بائڈن انتظامیہ سے توقع رکھے گا کہ وہ پاکستان کی کوششوں کو تسلیم کرے اور اسے سراہے۔

چوتھی ممکنہ توقع کشمیر کے حوالے سے ہوسکتی ہے- بھارت کے زیرقبضہ کشمیر کے حوالے سے امریکہ کی طرف سے کبھی مثبت رویے کا مظاہرہ نہیں کیا گیا- البتہ ٹرمپ انتظامیہ نے ثالثی کی پیشکش ضرور کی تھی- لیکن بھارت کی ناراضگی کی وجہ سے یہ پیشکش بھی دفن ہوگئی- پاکستان یقینا بائڈن انتظامیہ سے توقع رکھے گا کہ وہ کشمیر ایشو پر گرمجوشی کا مظاہرہ کرے اور پاکستان کے موقف کو فالو کرے-  کشمیر میں جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہورہی ہیں جن کی تازہ مثال پچھلے سال لگنے والا کرفیو ہے، جس کی وجہ سے لوگوں کو شدید مشکلات کا سامناکرنا پڑا رہا ہے- اسکول، ہسپتال اور کاروبار بند تھے- انٹرنیٹ کی سہولت منقطع ہوچکی تھی- پاکستان چاہے گا کہ بائیڈن انتظامیہ مودی سرکار پر دباؤ ڈالے اور اس مسئلے کو قانونی حل کی طرف لے جائے۔

پانچویں توقع پاکستان میں سرمایہ کاری کے حوالے سے ہوسکتی ہے- پاکستان امداد کی بجائے سرمایہ کاری کو ترجیح دیتے ہوئے امریکہ سے توقع کرتا ہے کہ وہ پاکستان میں سرمایہ کاری کرے- اس حوالے سے پاکستان نے ایک پیشکش بھی کی ہے کہ سی پیک کے ذریعے جو اقتصادی ذونز پیدا ہوں گے، امریکہ اس میں سرمایہ کاری کرے۔ پاکستان کی ممکنہ توقعات کس حد تک پوری ہوتی ہیں یہ توآنے والا وقت ہی بتائے گا

یکساں نصاب تعلیم کیا ہے؟

یکساں نصاب تعلیم کیا ہے؟

پاکستان تحریک انصاف حکومت میں آنے سے پہلے یکساں تعلیمی نظام رائج کرنے کا دعوی کررہی تھی- اب ڈھائی سال گزرنے کے بعد حکومت  نے اعلان کیا ہے کہ وہ ملک کے تمام صوبوں میں یکساں نصاب تعلیم نافذ کرنے جارہی ہے- خبر تو شاید ہر کسی نے سنی ہوگی لیکن ذیادہ تر لوگ اس حوالے سے تذبذب کا شکار ہیں کہ اصل میں یہ پالیسی  کیا ہے- اس الجھن کو ختم کرنے کے لئیے ہم نے قلم کو زحمت دی ۔

یکساں نصاب تعلیم کامقصد تمام بچوں کو معیاری تعلیم حاصل کرنے کا منصفانہ اور مساوی موقع  فراہم کرنا، سماجی ہم آہنگی اور قومی یکجہتی کا فروغ ، جدید دنیا سے مقابلہ کرنے والے کے لیئے طلباء کو تیار کرنا، مدراس کے طلباء کو یکساں تعلیمی مواقع فراہم کرنا اور ایک نصاب کا اطلاق کرنا ہے۔

اس پالیسی کے تحت پینتیس ہزار سے ذائد مدارس حکومت کے پاس رجسٹرڈ ہوں گے، حکومت ان مدارس کے ساتھ مل کر دینی تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کو وہی تعلیم بھی دلوائے گی جو معیاری اسکولوں میں بچوں کو دی جاتی ہے- ان اساتذہ کی تنخواہیں بھی حکومت کے ذمہ ہوںگی- جو مدارس حکومت کے ساتھ چلنے کو تیار نہیں انہیں بند کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے- اسکے علاوہ سلیبس میں قرآن بمع ترجمہ، سیرت النبی ،آئین پاکستان،اقبال اور محمد علی جناح کے افکار شامل کئے گئے ہیں- سلیبس کو چالیس سے پچاس فیصد تک کم کردیا جائے گا۔

 

حکومتی ذرائع کے مطابق پہلے مرحلے میں اس پالیسی کا اطلاق پرائمری سطح پر ہوگا- پالیسی پر باقاعدہ عمل درآمد نئی تعلیمی سال یعنی مارچ یا اپریل میں ہوگا-دوسرے مرحلے میں مڈل سطح پر 2022ء سے اطلاق ہوگا جبکہ تیسرے مرحلے میں نویں سے بارہویں تک کی جماعتیں شامل کی جائیں گی اور اس مرحلے کا اطلاق 2023ء سے ہوگا- بہر حال یہ تو ایک آدھ مہینے میں واضح ہوجائےگا کہ پالیسی پر عمل درآمد ممکن ہوسکے گا یا نہیں کیونکہ اعلانات سے لوگوں کا اعتبار اٹھ چکا ہے- بالکل اسی طرح کا اعلان 2014ء میں پختون خواہ کی حکومت نے کیا تھا- اس وقت کے وزیر تعلیم عاطف خان نے دعوی کیا تھا کہ صوبے میں یکساں نصاب تعلیم کا نفاذ ہوچکا ہے لیکن بعد میں پتہ چلا نفاذ صرف پریس کانفرنس میں ہوچکا ہے-

یکساں نصاب تعلیم کے حوالے سے جو بڑی غلط فہمی جنم لے چکی ہے وہ پالیسی کا بنیادی مقصد ہے- زیادہ تر لوگ یکساں نصاب تعلیم کو یکساں کتاب تعلیم سمجھ بیٹھے ہیں، حالانکہ ایسا بالکل بھی نہیں- یکساں نصاب تعلیم کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ کتاب ایک جیسی ہوگی- کتاب اورزبان مختلف بھی ہوسکتے ہیں- لیکن اصل مقصد ہے کہ مطلوبہ کلاس سے نکلنے کے بعد تمام بچوں میں ایک جیسی اہلیت موجود ہو- مثال کے طور پر کوئی ادارہ اپنے نرسری کے بچوں کو الف سے اخبار سکھائے یا  آنار کوئی فرق نہیں پڑھتا، بس اسے اردو حروف تہجی آنے چاہئیں۔

اس پالیسی کو اگر ایک طرف سراہا جارہا ہے تو دوسری طرف اس پر تنقید بھی ہورہی ہے- کالم نگار اور ماہر تعلیم ڈاکٹر پرویز ہودبھائے اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ یہ پالیسی بچوں کی بربادی ہے- ہودبھائے صاحب مزید کہتے ہیں کہ جو اسکولز پچاس ہزار روپے فیس لے رہے ہیں اس کا مقابلہ کوئی ایسا اسکول کیسے کرے گا جہاں پانچ سو روپے فیس وصول کی جاتی ہے- آپ نے حکومت کے اس قدم کو منافقت قرار دیتے ہوئے دعوی کیا ہے کہ دیہی علاقوں کے بچے یکدم اس لیول پر نہیں جاسکتے جہاں مہنگے اسکولوں کے بچے کھڑے ہیں-  ایک اور نقاد معروف تجزیہ نگار حسن نثار کہتے ہیں کہ بچوں کو دینی تعلیم دینے کی ذمہ داری حکومت نہ لے بلکہ یہ ہم پر چھوڑ دیں، علم میں کوئی دینی اور لادینی نہیں ہے بلکہ یہ سب دین سمجھ کر حاصل کرنا چاہئے-

اس تمام تر صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت اگر تعلیمی میدان میں واقعی ترقی کرنا چاہتی ہے تو بجٹ میں اضافہ کیوں نہیں کیا؟ کیا تمام اسکولوں کو تربیت یافتہ اساتذہ میسر ہوسکیں گے؟ کیا مہنگے اسکولوں میں اساتذہ کی تنخواہیں پچاس ہزار اور دیہی یا متوسط اسکولوں میں پندرہ ہزار پھر بھی ملیں گی؟ اگر ہاں تو پھر یکساں تعلیم کیسے دیا جائے گا؟ کیا مہنگے اور سستے اسکولوں میں فرق مٹ سکے گا؟  کیا دیہی علاقوں میں وہ تمام سہولیات میسر ہوسکیں گے جو شہری علاقوں میں ہوں گے؟  کیا دیہات کے سرکاری اسکول کو کمپیوٹر اور معیاری لیبارٹری فراہم ہوسکے گی؟ یہ تمام وہ سوالات ہیں جن کے جوابات کا ہر پاکستانی منتظر ہے- بہر حال دو تین سالوں میں یہ واضح ہوجائے گا کہ یہ پالیسی کامیاب ہوتی ہے یا نہیں- اگر کامیاب ہوتی ہے اور مثبت نتیجہ نکلتا ہے تو یقینا یہ حکومت کا شہریوں پر احسان ہوگا۔

سال 2020 میں دنیا سے رخصت ہونے والی پاکستانی شخصیات

سال 2020ء گزرگیا لیکن گلشن ویران کر گیا۔ کئی اہم سیاسی، سماجی اور مذہبی رہنما رخصت ہوئے- ان شخصیات نے اپنے ملک کے لئے بیش قیمت قربانیاں دی ہیں- آج وہ ہم میں نہیں رہے لیکن ان کی یادیں ہمیشہ ساتھ رہیں گی- آج ہم اس تحریر میں ان شخصیات کو یاد کریں گے اور انھیں خراج عقیدت پیش کریں گے۔

طارق عزیز

طارق عزیز 1936ء کو جالندھر میں پیدا ہوئے-  پاکستان ٹیلی ویژن پر نمودار ہونے والی پہلی شخصیت تھے- 1964ء میں جب پی ٹی وی کا آغاز ہوا تو لوگ طارق عزیز سے آشنا ہوئے- 1974ء میں نیلام گھر کا آغاز کیا جو ان کی وجہ شہرت بنا- بعد میں نیلام گھر سے بزم طارق عزیز شو میں تبدیل ہوگیا- طارق عزیز نے کئی فلموں میں بھی کام کیا۔ اس کے علاوہ قومی اسمبلی کے رکن بھی رہ چکے ہیں- 17 جون

2020ء کو اس دار فانی سے کوچ کرگئے- لیکن ان کے یہ الفاظ ہمیشہ لوگوں کے کانوں میں گونجتے رہیں گے ” دیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں کو طارق عزیز کا سلام پہنچے۔

میر ظفراللہ خان جمالی

ظفراللہ خان جمالی یکم جنوری 1944ء کو ڈیرہ مراد جمالی میں پیدا ہوئے- 2002ء میں انھوں نے پاکستان کے پندرھویں وزیراعظم کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔ وہ بلوچستان سے منتخب ہونے والے پہلے وزیراعظم تھے- 2013ء سے 2018ء تک قومی اسمبلی کے  رکن رہے- 2 دسمبر 2020ء کو جمالی صاحب راولپنڈی میں انتقال کرگئے۔

میر حاصل خان بزنجو

میر حاصل بزنجو 3 فروری 1954ء کو پیدا ہوئے- وہ نیشنل پارٹی کے بانی رہنما تھے- بلوچستان کے حقوق کے لئے آواز اٹھانے والوں میں حاصل بزنجو کا نام ہمیشہ یاد رکھا جائے گا- نواز شریف حکومت میں  2017ء سے 2018ء تک وفاقی وزیر رہے- 20 اگست 2020ء کو میر حاصل بزنجو فانی دنیا چھوڑ کر چلے گئے۔

سید منور حسن

سید منور حسن 5 اگست 1941ء کو ہندوستان کے شہر دہلی میں پیدا ہوئے- 1977ء میں وہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے. – قاضی حسین احمد کے بعد جماعت اسلامی کے چوتھے امیر بنے- ان کی جرات اور استقامت کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا- 26 جون 2020ء کو شدید علالت کے بعد انتقال کرگئے۔-

فخرالدین جی ابراھیم

فخرالدین جی ابراھیم 12 فروری 1928ء کو ہندوستان کے شہر احمدآباد میں پیدا ہوئے- فخرالدین جی سینئر وکیل اور جج تھے-  14 جولائی 2012ء کو آپ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے 24 ویں چیف بن گئے-آپ 7 جنوری 2020ء کو انتقال کرگئے۔

سید فضل آغا

بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سید فضل آغا 1946ء میں پیدا ہوئے- آپ جمعیت علماء اسلام پاکستان کے سرکردہ رہنماوں میں شمار ہوتے تھے- 18 اگست 1999ء کو آپ بلوچستان کے گورنر مقرر ہوئے- 1988ء سے 1991ء تک ڈپٹی چیئرمین سینیٹ رہے۔

نعمت اللہ خان

نعمت اللہ خان یکم اکتوبر 1930ء کو اجمیر، ہندوستان میں پیدا ہوئے- آپ جماعت اسلامی پاکستان کے متحرک رہنما تھے- تحریک اسلامی کے لئے ان کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی- آپ شعبہ درس وتدریس سے بھی وابستہ رہے- 2001ء سے 2005 تک کراچی کے مئیر یعنی ناظم رہے- اس دوران آپ نے کراچی کی بہت خدمت کی- یہی وجہ تھی کہ کراچی کے لوگ آج بھی نعمت اللہ خان کو کراچی کے بہترین ناظم سمجھتے ہیں- موصوف  15 فروری 2020ء کو کراچی میں انتقال کرگئے-

نعیم الحق

نعیم الحق 11 جولائی 1949ء کو پیدا ہوئے- آپ کا شمار پاکستان تحریک انصاف کے بانی رہنماوں میں کیا جاتا ہے-نعیم الحق پاکستان تحریک انصاف سندھ کے صدر تھے- موجودہ حکومت میں وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی تھے-آپ 15 اگست 2020ء کو دو سال کی علالت کے بعد اس دار فانی سے رخصت ہوگئے۔

مولانا عادل خان

مولانا عادل خان 1957ء کو پیدا ہوئے- 1992ء میں آپ نے کراچی یونیورسٹی سے اسلامک کلچرمیں پی ایچ ڈی کی۔ 2010ء سے 2018ء تک انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی ملائشیا میں پڑھاتے رہے-  اس کے بعد وہ جامعہ فاروقیہ کراچی میں پڑھاتے رہے- آپ وفاق المدارس العربیہ کے کمیٹی کے ممبر بھی رہ چکے ہیں- 10 اکتوبر 2020ء کو شاہ فیصل کالونی میں نامعلوم افراد کے ہاتھوں شہید ہوگئے-

 ڈاکٹر مبشر حسن

ڈاکٹر مبشر حسن 21 جنوری 1922ء کو پانی پت، ہندوستان میں پیدا ہوئے- نومبر 1967ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کا جنم آپ کے ہی گھر میں ہوا-  1971ء میں آپ فنانس منسٹر بن گئے- آپ کا شمار ذوالفقار علی بٹھو کے دیرینہ اور وفادار ساتھیوں میں ہوتا تھا- 14 مارچ 2020ء کو آپ 98 برس کی عمر میں انتقال کرگئے۔

آیات اللہ درانی

آیات اللہ درانی یکم جنوری 1956ء کو مستونگ، بلوچستان میں پیدا ہوئے- آپ کا سیاسی تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے تھا- 2008ء میں وفاقی وزیر بھی رہے- کوویڈ-19 کی وجہ سے 5 جولائی 2020 کو کوئیٹہ میں انتقال کرگئے۔

ایڈمرل فصیح بخاری

ایڈمرل فصیح بخاری 8 مارچ 1942ء کو پیدا ہوئے- 1997ء سے 1999ء تک وہ پاکستان نیوی کے سربراہ رہے- اس کے علاوہ آپ نیب کے چیرمیئن بھی رہ چکے ہیں- فصیح بخاری 1965ء اور 1971ء کی جنگیں لڑچکے ہیں- آپ کو ستارہ امتیاز، نشان امتیاز اور حلال امتیاز جیسے قابل فخر اعزازات سے نوازا گیا ہے- 24 نومبر 2020ء کو آپ دنیا چھوڑ  گئے۔

صبیحہ خانم

پاکستانی اداکارہ صبیحہ خانم 16 اکتوبر 1935ء کو گجرات میں پیدا ہوئیں- آپ نے متعدد کامیاب فلموں میں کام کیا اسی وجہ سے آپ کو ” پاکستانی سینیما کی خاتون اول” کے نام سے یاد کیا جاتا ہے- صبیحہ خانم 13 جون 2020ء کو انتقال کرگئیں۔

کامیڈین امان اللہ خان

مشہور کامیڈین امان اللہ خان 1950ء کو لاہور میں پیدا ہوئے- آپ نیو نیوز اور دنیا نیوز میں بھی بطور کامیڈین کام کرچکے ہیں- 6 مارچ 2020ء کو آپ دنیا چھوڑ کر چلے گئے۔

بیگم شمیم اختر

بیگم شمیم اختر سابق وزیراعظم نواز شریف اور شہباز شریف کی والدہ تھیں- آپ 9 مارچ 1927ء کو لاہور میں پیدا ہوئیں- محترمہ 2013ء سے 2018ء تک صوبائی اسمبلی کی رکن رہیں- 22 نومبر 2020ء کو بیگم شمیم لندن میں انتقال کرگئیں۔

خادم حسین رضوی

مذہبی اسکالر خادم حسین رضوی 22 جون 1966ء کو اٹک میں پیدا ہوئے- آپ تحریک لبیک پاکستان کے بانی تھے- خادم رضوی 19 نومبر 2020ء کو لاہور میں وفات پاگئے۔

جسٹس وقار احمد سیٹھ

وقار احمد سیٹھ 16 مارچ 1966ء کو ڈیرہ اسماعیل خان میں پیدا ہوئے- آپ جون 2018ء سے نومبر 2020ء تک پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رہے- 12 نومبر 2020ء کو وقار سیٹھ کوویڈ-19 کی وجہ سے انتقال کرگئے۔

محمد جادم منگریو

جادم منگریو مسلم لیگ فنکشنل کے مرکزی رہنما تھے- آپ 2008ء میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے- اپنے دور میں وہ ریلوے کے وزیر بھی رہ چکے ہیں- آپ 25 نومبر 2020ء کو کوویڈ-19 سے وفات پاگئے۔

کلثوم پروین

مسلم لیگ کی رہنما کلثوم پروین 1945ء میں پیدا ہوئیں- آپ 2013ء سے موت تک سینیٹر رہیں- کلثوم پروین 21 دسمبر 2020ء کو اسلام آباد میں وفات پاگئیں۔-

ففتھ جنریشن وار

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جنگ کے طریقے بھی بدلتے رہتے ہیں- ماہرین نے جنگوں کو مختلف ادوار میں تقسیم کیا ہے جسے وار فئیر ماڈل کہا جاتا ہے- وار فئیر ماڈل کا آغاز 1648ء میں اس وقت سے ہوا جب کیتھولک اور پروٹسٹنٹ عیسائیوں کے درمیان لڑی جانے والی تیس سالہ جنگ کے بعد “امن ویسفالیہ” کے نام سے امن معاہدہ ہوا-
شروع میں جنگ میں تلواروں کا استعمال ہوتا تھا، گھوڑے اور اونٹ سواری کے لئے استعمال ہوتے تھے- جنگ کے لئے کھلے میدان کا انتخاب کیا جاتاتھا، اور بالکل آمنے سامنے آکر لڑی جاتی تھی-جیت کا دارومدار افرادی قوت پر ہوتا تھا- اس دور کو ماہرین فرسٹ جنریشن وار کے نام سے یاد کرتے ہیں- پھر ٹیکنالوجی کا زمانہ آگیا، تلواروں کی جگہ بندوق اور ٹینک نے لے لی- اس دور کو سیکنڈ جنریشن وار کہتے ہیں، جس کی مثال پہلی جنگ عظیم ہے- دوسری جنگ عظیم سے لے کر 70s تک کے دور کو تھرڈ جنریشن وار کا زمانہ کہا جاتا ہے- اس دور میں پہلی بار جنگی جہازوں کو متعارف کرایا گیا- یہ دور ختم ہوتے ہی فورتھ جنریشن وار شروع ہوئی جو اکیسویں صدی کے اوائل تک جاری رہی- اس قسم کی جنگوں میں دوسروں کو استعمال کیا جاتاہے، یعنی براہ راست جنگ سے اجتناب کیا جاتا ہے- اس دور میں انسانی قوت کی اہمیت ماند پڑگئی- اس کے بعد نفسیاتی جنگ کا دور شروع ہوگیا، جو جنگوں کی تاریخ میں خطرناک ترین دور سمجھا جاتا ہے- اس جنگ کو ففتھ جنریشن وار یا ہائبرڈ وار کہا جاتاہے-
ففتھ جنریشن وار فئیر یا پانچویں نسل کی جنگی حکمت عملی کو سمجھنے میں زیادہ تر لوگ تذبذب کا شکار ہیں- اسکالرز کسی خاص تعریف پر متفق نہیں ہے بلکہ کچھ لوگ اس کی موجودگی پر بھی اعتراض کرتے ہوئے دعوی کرتے ہیں کہ اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لئے کچھ ممالک اس اصطلاح کا استمعال کرتے ہیں- بہرحال اس جدید حکمت عملی کے اوصاف کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کی پیدائش یا موجودگی کا انکار نہیں کیا جاسکتا- ماہرین جنگ کے خیالات اور نقطۂ نظر کو دیکھتے ہوئے ہم سادہ الفاظ میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ ففتھ جنریشن وار وہ جنگ ہے جس میں ایک ملک خود کو معاشرتی، معاشی، سیاسی اور دفاعی طور پر مظبوط کرنے اور دشمن ملک کو فیزیکل ہتھیاروں کا استمعال کئے بغیرکمزور کرنے کی کوشش کرتا ہے- اس جنگ کی خصوصیت یہ ہے کہ ٹارگٹ کو حملے کا پتہ نہیں چلتا یہاں تک کہ انہیں شکست ہوجاتی ہے-

ففتھ جنریشن وار فئیر کی اصطلاح پہلی دفعہ 90s میں امریکہ نے استمعال کی- لیکن یہ شروع کب سے ہوا، یہ واضح نہیں ہے- البتہ بیسویں صدی کے نصف سے اس کے اثرات شروع ہوگئے تھے- سقوط ڈھاکہ سے لے کر افغان جنگ تک کی تاریخی اوراق کو پلٹنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ہر محاذ پر پانچویں نسل کی جنگی حکمت عملی کا استمعال کیا گیا-
ففتھ جنریشن وار تین طریقوں سے لڑی جاتی ہے۔ پہلا طریقہ یہ ہے کہ ایک ملک اپنے جاسوس دشمن ملک بھیج دیتے ہیں، جن کے ذریعے وہاں انتقامی کارواياں کی جاتی ہے۔دوسرا طریقہ دشمن ملک کو معاشی طور پر مفلوج کرنا ہے۔ جبکہ آخری اور خطرناک طریقہ دشمن ملک کے شہریوں کو بغاوت کے لیے اکسانا ہے۔
اول الذکر طریقہ پہلے بھی جنگوں میں استمعال ہوتا تھا لیکن فرق صرف اتنا تھا کہ پہلے جاسوس صرف خبر رسائی کا کام کرتے تھے- جبکہ اب بات باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ہونے والی سازشوں اور تخریب کاریوں تک پہنچی ہے- بھارتی جاسوس کھلبوشن کی مثال ہمارے سامنے ہے، ان جیسے ہزاروں نقاب پوش چہرے دنیا کے مختلف حصوں میں دہشت گردانہ کاروائیاں کرتے ہیں-
ثانی الذکر طریقہ یعنی معاشی طور پر کسی کو کمزور کرنا خطرناک ہتھیار تصور کیا جاتا ہے- دشمن ملک کو قرضے دے کر کنٹرول کیا جاتا ہے- اس کے علاوہ ملک کے اندر خفیہ منصوبہ بندی کے تحت ایسے حالات پیدا کرنا جو معاشی بدحالی کا باعث بنے- حال ہی میں کراچی اسٹاک ایکسچینج پر حملہ ففتھ جنریشن وار کی ایک کھڑی ہے، جس کا ذکر وزیراعظم عمران خان کرچکے ہیں- وزیر اعظم نے اسمبلی میں بھارت کی اس نا پاک سازش کا تفصیلاً ذکر کیا۔
تیسرا طریقہ جو سب سے خطرناک ہے یعنی کسی ملک کے لوگوں کو ریاست اور اداروں کے خلاف بغاوت پر آمادہ کرنا ہے- پاکستان میں درجنوں تنظیمیں حکومت اور اداروں کے خلاف کام کرہی ہے- کرکٹ ورلڈ کپ 2019ء کے دوران اسٹیڈیم کے اوپر ایک ہیلی کاپٹر پرواز کرہا تھا – جس کے پیچھے ایک بینر آویزاں تھا، جس پر صاف لکھا ہوا تھا ” فری بلوچستان”– عام آدمی کی سمجھ میں آنے کے لئے یہ ففتھ جنریشن وار کی واضح مثال ہے-
ففتھ جنریشن وار میں کمزور ممالک کو ٹارگٹ کیا جاتاہے- سب سے پہلے مطلوبہ ملک کی کمزوریاں تلاش کی جاتی ہے- جیسے فرقہ واریت، مذہبی انتہا پسندی، کرپشن، حکومت کی نا اہلی، انصاف کی عدم دستیابی اور شہریوں پر ریاست کی طرف سے ظلم وغیرہ- اگر کسی ملک کے اندر اس طرح کی کمزوریاں موجود ہو تو ففتھ جنریشن وار کے لئے ماحول موذوں ہوتا ہے- وہاں پر آسانی سے جنگ جیتی جاسکتی ہے-
ہائبرڈ وار کے لئے میڈیم کا کردار الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا ادا کرتے ہیں- سوشل میڈیا کو اس جنگ کا بہترین میدان تصور کیا جاتا ہے- کیونکہ دور جدید میں ہر کسی کو سوشل میڈیا تک رسائی حاصل ہے- دنیا گلوبل ولیج  کی شکل اختیار کرچکا ہے اور میڈیا کو اس ویلج میں بیٹھک کی حیثیت حاصل ہے- روز ہزاروں غلط اور ملک دشمن خبریں پھیلائی جاتی ہے اور ہم آنکھیں بند کرکے اسے قبول کرلیتے ہیں- کیونکہ ہم ابھی تک ” میڈیا ڈائریکٹ ایفکٹ دور” میں جی رہے ہیں- باشعور لوگوں کی نشانی ہوتی ہے کہ وہ پہلے تصدیق کرتے ہیں بعد میں کسی بھی موضوع پر اپنی رائے قائم کرتے ہیں۔
پاکستان اس وقت اپنے کچھ پڑوسیوں اور بین الاقوامی قوتوں کے نشانے پہ ہے جو ففتھ جنریشن وار فئیر کے مختلف طریقوں کو اپنا کے پاکستان کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پاکستان کو اس خطرناک جنگ کا مقابلہ کرنے کے لئے سب سے پہلے میڈیا پر ملک دشمن باتوں کو رد کرتے ہوئے اپنی کمزوریوں کو طاقت میں بدلنا پڑے گا- اس کے لئے حکومت، اداروں اور شہریوں کو مل کر کام کرنا ہوگا- اگر حکومت ناانصافی، اور کرپشن جیسے عناصر پر توجہ نہیں دے سکیں تو مشکل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے- اس کے علاوہ شہریوں کو فرقوں میں بٹنے کے بجائے ایک ہی قوم بن کر رہنا اوردکھانا پڑے گا ورنہ دشمن کے لئے آسانیاں پیدا ہوں گے۔

کوہ ایلم کے دامن میں آباد سکھ

تقسیم ہند سے پہلے متحدہ ہندوستان میں مختلف اقوام کے لوگ ایک ساتھ رہا کرتے تھے۔ ان کے درمیان تعلق اتنا مضبوط تھا کہ باہر سے آنے والے لوگ اسے ایک ہی قوم اور مذہب کے پیروکار سمجھ بیٹھتے تھے۔ آج آپ کو خیبر پختونخواہ کے ایک ایسے علاقے کے بارے میں معلومات دیتا ہوں جہاں سکھ اور مسلمان ابھی بھی ایک ساتھ رہتے ہیں اور اُن کا آپس میں محبت اور اعتماد دیکھ کر یقینا ً آپ کو خوشی اور حیرانی ہوگی۔

خیبر پختونخواہ کے شمال میں واقع اس ضلع کا نام بونیر ہے۔ لفظ بونیر کے معنی جنگل کے ہیں۔ وسیع پیمانے پر جنگلات کی وجہ سے یہاں کی آب و ہوا اور خوبصورتی قابل دید ہے۔ انیسویں صدی میں لڑی گئی امبالہ جنگ (جو رستم اور بونیر کے بارڈر امبالہ کے مقام پر لڑی گئی) پختونوں کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھی جائیگی۔ جس میں پشتونوں نے مل کر انگریزوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ یہاں کے لوگوں کی غیرت اور وطن سے محبت کا اندازہ 2009ء دہشت گردوں کے خلاف ڈٹ کر لڑنے اور ضلع میں داخلے کے وقت سخت مزاحمت سے لگایا جاسکتا ہے۔ امن اور محبت کا ذکر کیا جائے تو یہاں شرح جرائم باقی اضلاع کی نسبت انتہائی کم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اقلیت کی بڑی تعداد یہاں خوش و خرم زندگی گزار رہے ہیں۔ جس میں اکثریت سکھ برادری کا ہے۔

آزادی کے وقت درجنوں سکھ اور ہندو خاندان بونیر سے ہجرت کرکے ہندوستان چلے گئے۔ لیکن ان میں سے کچھ اپنے آبائی علاقے کو چھوڑنے پر آمادہ نہیں تھے، اور وہ یہیں رہ گئے۔ یہ اس علاقے کا امن ہی تھا کہ بعد میں پاکستان کے مختلف علاقوں سے سکھ بونیر آکر بسنے لگے جس کی وجہ سے تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔

سکھ کمیونٹی کے زیادہ تر خاندان کوہ ایلم کے دامن میں واقع پیربابا کے گاؤں میں آباد ہیں۔ 2017ء میں کی گئی ایک سروے کے مطابق لگ بگ تین سو سکھ خاندان بونیر میں رہتے ہیں۔جس کی تعداد میں اب اضافہ ہوچکا ہے۔ پیر بابا کے غورغوشتو اور دیوانہ بابا میں بھی درجنوں سکھ خاندان رہائش پذیر ہے۔

مسلمان اور سکھ برادری کے درمیان مضبوط تعلق ہے۔جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس جدید دور میں بھی لوگ اپنے امانت اور پیسے بینکوں کے بجائے سکھ بھائیوں کے پاس رکھتے ہیں۔ اس ضمن میں پیربابا سے تعلق رکھنے والے ایک مقامی دکاندار کا کہنا ہے کہ جس وقت بینکنگ سسٹم موجود نہیں تھا اس وقت سے لوگ اپنی امانتیں سکھوں کے پاس رکھا کرتے تھے، جن میں بونیر کے دور دراز علاقوں کے لوگ بھی ہوتے تھے۔

عمران کا کہنا ہے کہ مذہبی رسومات ، خوشی اور غم کے لمحات میں ہم ہمیشہ ساتھ رہتے ہیں۔ جب بھی ہم میں سے کسی کو مالی مشکل پیش آتی ہے تو دونوں برادریوں کے لوگ کھل کر ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کے سرکردہ رہنما ءاور سوشل ایکٹیوسٹ مرحوم سردار سورن سنگھ کا تعلق بھی پیر بابا سے تھا۔ جنہوں نے سکھ اور مسلمان برادری کے باہمی تعلقات کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ مرحوم سورن سنگھ مذہبی انتہا پسندی کے خلاف تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بائیس سال تک جماعت اسلامی سے منسلک رہے۔ تحریک انصاف میں شمولیت کے وقت ان کا موقف تھا کہ جماعت اسلامی بہترین جماعت ہے، لیکن تحریک انصاف میں شمولیت سے برادری کی طرف سے حمایت زیادہ ہوگئی۔

سکھ بزرگوں کے مطابق انھیں مذہبی عقائد اور رسومات کی مکمل آزادی حاصل ہے۔ بابری مسجد پر حملے اور 2009ء میں دہشتگردی کی وجہ سے انھیں وقتی طور پر مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کی وجہ سے ہم ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے تھے لیکن وہ سکھ اور مسلمان دونوں کے لئے مشکل وقت تھا۔

پیربابا میں سکھ کمیونٹی کے لوگ مختلف قسم کے کاروبار کرتے ہیں۔ جس میں کپڑے اور بیکری کا کام سرفہرست ہے۔ یہاں کے سکھ اعلیٰ کوالٹی کے سویٹس تیار کرتے ہیں۔ لیکن مشہور سوغات “میسو” ہے۔ میسو وہ منفرد سوغات ہے جو آپ کو صرف بونیر میں ہی ملے گی۔ پختونخواہ کے مختلف علاقوں کے لوگ جب پیربابا آتے ہیں تو میسو کی ڈیمانڈ ضرور کرتے ہیں۔ لوگ اسے بطور تحائیف بھی دیتے ہیں۔ اس کا ذائقہ بہترین ہوتا ہےاور ایک دفعہ کھانے کہ بعد دوبارہ اس کی مانگ ضرور کی جاتی ہے۔

بونیر کے سکھ اور مسلمان برادری کا یہ اعتماد اور اتحاد باقی لوگوں کے لئے ایک مثبت پیغام ہے۔ مذاہب اور رسومات میں اختلاف سے کوئی فرق نہیں۔ اگر دلوں میں انسانیت کا جذبہ پیدا کیا جائے تو ہم امن کا ما حول پیدا کرسکتے ہیں۔ ہر مذہب ہمیں دوسرے مذاہب کے پیروکاروں سے اچھے برتاؤ کا درس دیتا ہےاور یہی جذبہ ہمارے پیارے ملک کو امن کا گہوارا بنا سکتا ہے۔

تیل کی قلت اور حکومت کی ذمہ داری

آٹا بحران کے بعد ملک میں تیل کی قلت پیدا ہوئی تو حکومت کی طرف سے بالکل اسی طرح کی سست روئی اور لا روائی دیکھنے کو ملی جو آٹے کی بحران پیدا ہونے پر دیکھنے کو ملی تھی۔ چونکہ ذیادہ تر کارخانوں اور آمدورفت کا انحصار تیل پر ہوتاہے، جس کی وجہ سے حکومت اور عوام دونوں کو کافی نقصان اٹھانا پڑرہا ہے۔

ملک کے ذیادہ تر پٹرول پمپس بند پڑے ہیں، جو کھلے ہیں وہاں لوگوں کی لمبی قطاریں لگی ہیں اور اوپر سے قیمت بھی دوگنا وصول کرتے ہیں۔ بازاروں میں غیر قانونی فروخت جاری ہے، جو 200 سے 300    تک وصول کرتے ہیں۔ یوں کہنا غلط نہیں ہوگا کہ تیل کی قیمتوں میں کمی عوام کے لئے درد سر بن گیا ہے۔

تیل کی قلت اچانک پیدا نہیں ہوئی بلکہ پاکستان اسٹیٹ آئل نے کئی بار حکومت کو متوقع بحران سے آگاہ کیا تھا۔ لیکن حکومت کوئی بھی احتیاطی قدم اٹھانے سے گریز کرتی رہی۔

مارچ کے آخر میں حکومت نے تیل کی درآمدات پر پابندی لگائی اور آئل اینڈ مارکیٹنگ کمپنیز کو کارگوز آرڈرز منسوخ کرنے کا حکم دیا۔ 6  اپریل کو پی ایس او نے اوگرا کو خط لکھا جس میں یہ بات واضح کی گئی کہ کمپنیز کے پاس تیل کے مطلوبہ ذخائر موجود نہیں ہے۔ اور پھر دو مئی کو متوقع بحران سے حکومت کو اگاہ کیا۔ لیکن حکومت کا موقف تھا کہ ملک میں مطلوبہ ذخائر موجود ہیں۔

آئل قیمتوں میں کمی، متوقع بحران اور لاک ڈاون میں نرمی کے بعد تیل کی ڈیمانڈ میں اضافہ ہوا تو تیل کی درآمدات پر حکومتی فیصلے کے نقصانات شدید بحران کی شکل میں آنا شروع ہوگئے۔ کافی دنوں تک تو حکومت خاموش رہی، لیکن جب عدالت نے وزارت پیٹرولیم اور اوگرا کو جلد از جلد بحران سے نمٹنے کا حکم دیا تو حکومت حرکت میں آگئی۔ حکومت اور او ایم سیز کا ایک دوسرے کو قصوروار ٹھہرانے کا سلسلہ شروع ہوا۔

 وزارت پیٹرولیم نے موقف اختیار کیا کہ آئل مافیا نے تیل کی مصنوعی قلت پیدا کی ہے۔ اور ساتھ ہی

 چونکہ ذیادہ تر کارخانوں اور آمدورفت کا انحصار تیل پر ہوتاہے، جس کی وجہ سے حکومت اور عوام دونوں کو کافی نقصان اٹھانا پڑرہا ہے۔

ملک کے ذیادہ تر پٹرول پمپس بند پڑے ہیں، جو کھلے ہیں وہاں لوگوں کی لمبی قطاریں لگی ہیں اور اوپر سے قیمت بھی دوگنا وصول کرتے ہیں۔ بازاروں میں غیر قانونی فروخت جاری ہے، جو 200 سے 300    تک وصول کرتے ہیں۔ یوں کہنا غلط نہیں ہوگا کہ تیل کی قیمتوں میں کمی عوام کے لئے درد سر بن گیا ہے۔

تیل کی قلت اچانک پیدا نہیں ہوئی بلکہ پاکستان اسٹیٹ آئل نے کئی بار حکومت کو متوقع بحران سے آگاہ کیا تھا۔ لیکن حکومت کوئی بھی احتیاطی قدم اٹھانے سے گریز کرتی رہی۔

مارچ کے آخر میں حکومت نے تیل کی درآمدات پر پابندی لگائی اور آئل اینڈ مارکیٹنگ کمپنیز کو کارگوز آرڈرز منسوخ کرنے کا حکم دیا۔ 6  اپریل کو پی ایس او نے اوگرا کو خط لکھا جس میں یہ بات واضح کی گئی کہ کمپنیز کے پاس تیل کے مطلوبہ ذخائر موجود نہیں ہے۔ اور پھر دو مئی کو متوقع بحران سے حکومت کو اگاہ کیا۔ لیکن حکومت کا موقف تھا کہ ملک میں مطلوبہ ذخائر موجود ہیں۔

آئل قیمتوں میں کمی، متوقع بحران اور لاک ڈاون میں نرمی کے بعد تیل کی ڈیمانڈ میں اضافہ ہوا تو تیل کی درآمدات پر حکومتی فیصلے کے نقصانات شدید بحران کی شکل میں آنا شروع ہوگئے۔ کافی دنوں تک تو حکومت خاموش رہی، لیکن جب عدالت نے وزارت پیٹرولیم اور اوگرا کو جلد از جلد بحران سے نمٹنے کا حکم دیا تو حکومت حرکت میں آگئی۔ حکومت اور او ایم سیز کا ایک دوسرے کو قصوروار ٹھہرانے کا سلسلہ شروع ہوا۔

چوبیس گنٹھوں کے اندر اندر بحران ختم کرنے کا حکم دیا۔

دوسرے ہی دن اوگرا نے مصنوعی قلت پیدا کرنے پر چھ کمپنیوں کو جرمانہ کیا اور تین کمپنیوں کو شوکازنوٹس جاری کرکے چوبیس گنٹھوں کے اندر جواب طلب کرلیا۔ اوگرا نے خبردار کیا کہ اگر قلت ختم نہ ہوئی تو مذید جرمانے لگ سکتے ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت نے ابھی تک جو اقدامات کئے ہیں، کیا اس سے مسئلہ حل ہوسکے گا ؟ کیا ملک میں تیل کی مطلوبہ مقدار موجود ہے؟ کمپنیوں کے پاس تیل کے ذخائر موجود ہے لیکن کیا قلت ختم کرنے کے لئے کافی ہے؟ ہر گرتے دن کے ساتھ ان سوالات کے جوابات واضح ہوتے جارہے ہیں، آئندہ چند روز میں یہ فیصلہ ہوجائے گا کہ ذیادہ قصوروار کون ہے؟ کیونکہ قصوروار تو حکومت اور او ایم سیز دونوں ہیں۔ حکومت نے تیل کی درآمدات پر پابندی لگا کر اپنا حصہ ڈالا۔ اور او ایم سیز نے جو تیل مہنگی قیمت پر خرید کر ذخیرہ کیا ہوا ہے وہ سستی قیمت پر بیچنے کو تیار نہیں۔ لیکن  ایسا کرنا قانون کی بھی خلاف ورزی ہے اور اخلاقی طور پر بھی درست نہیں ہے۔ فائدہ اور نقصان مارکیٹ کا حصہ ہے۔

یقیناً آئل کمپنیوں پر دباؤ ڈال کر صورتحال کو قابو کیا جاسکتا ہے۔عوام کو تھوڑی بہت ریلیف مل جائے گی۔ دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ قلت کی ڈر سے ڈیمانڈ میں جو اضافہ ہوچکا تھا وہ کم ہوجائےگا کیونکہ لوگ ضرورت سے ذیادہ ذخیرہ رکھنے کی کوشش کررہے تھے۔ لیکن ایسا کرنے سے ہم مکمل طور پر قلت ختم نہیں کرسکتے۔

حکومت کو عالمی مارکیٹ میں موجودہ قیمت پر تیل خرید کر درآمد کرنا پڑے گا۔ جس سے حکومت کو نقصان ضرور ہوگا لیکن قلت ختم کرنے میں آسانی ہوگی۔ لوکل پیٹرول پمپس اور بازاروں میں جو عام دوکاندار غیر قانونی طریقے سے مہنگی قیمتوں پر پیٹرول بیچ رہے ہیں، ان کے خلاف بھی فوری کاروائی کی ضرورت ہے۔

 صرف حکومت پر تنقید کرکے عوام اخلاقی فرائض سے بری الذمہ نہیں ہوسکتے، ضرورت سے ذیادہ تیل ذخیرہ کرنے سے مذید مشکلات پیدا ہوں گے۔ ذمےدار شہریوں کا ثبوت دے کر ہمیں حکومت کا ساتھ دینا پڑے گا۔ بروقت اقدامات نہ کرنے کی صورت میں مزید قلت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔